ہم اکثر کہتے ہیں کہ چھوٹے دکانداروں، ریڑھی والوں سے
چیز خرید لینی چاہیے، چاہے ضرورت نہ ہو۔ ایک بہانہ ہی سہی، لیکن ان کی مدد ہو جاتی ہے۔
ایک پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے، شادی سے پہلے کا۔
ایک بار ایک ریڑھی والے سے چپس خریدنے کا اتفاق ہوا۔
پوچھا، "کتنے کی پاؤ؟"
کہنے لگا، "100 روپے کی پاؤ۔"
ہم نے کہا، "آدھا پاؤ دے دو۔"
میں اور چھوٹی تھیں، ایویں بس منچنگ کا شوق پورا کرنا تھا۔
اس نے 104 گرام تول دی۔
میں نے پوچھا، "ایک پاؤ میں کتنے گرام ہوتے ہیں؟"
کہنے لگا، "250 گرام۔"
میں نے پھر کہا، "تو آدھا پاؤ کتنے کا ہوتا ہے؟"
بولے، "125 گرام۔"
پھر میں نے سیدھا سوال کیا، "تو آپ نے 104 گرام کیوں دیے؟"
جواب میں آئیں بائیں شائیں...
پھر جناب نے 125 گرام پوری کی بڑے احسان کے ساتھ
آج بازار میں ایک طرف کھڑی سوچ رہی تھی کہ کیا کیا رہ گیا ہے لینے والا۔
ایک پھیری والا قریب سے گزرا، جس کے پاس کنگھیاں، شیشے، پونیاں وغیرہ تھیں۔
چھوٹی کنگھیاں نظر آئیں تو دل میں آیا لے لوں، میرے بیٹے کو آج کل جیب میں کنگھی رکھنے کا بڑا شوق ہے۔ وہ باریک کنگھی لیے پھرتا ہے
پوچھا، "کتنے کی ہے؟"
جواب ملا، "30 کی ایک، 50 کی دو۔"
اٹھا لیں۔ پھر زمر کے لیے بلیک پونیاں دیکھیں، وہ بھی پچاس کی لے لیں۔
پھر میری نظر سیفٹی پنز پر پڑی۔ پوچھا، "یہ کتنے کی؟"
کہنے لگا، "40 کی ایک، 100 کی تین۔"
اور بنا وقت ضائع کیے تین گچھے میرے ہاتھ میں تھما دیے۔
دماغ گھوم گیا۔
میں اسی طرح کی چیزوں کے سٹال کے سامنے کھڑی تھی، مجھے اچھی طرح علم تھا ان کی اصل قیمت کا۔
دل میں خیال آیا، یہ بندہ تو میرے 'ترس کھانے کی عادت' کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
میں نے کہا، "واپس لے لو بھائی، یہ 20 کی آتی ہے ایک۔"
کہنے لگا، "یہ سٹیل کی ہے۔"
لو دسو اپنے جہیز کے سامان میں برتن والی ٹوکری اور گلاس سٹینڈ لیا تھا جو بقول دوکاندار سٹیل کا تھا اور مہینے میں وہ دونوں چیزیں زنگ سے خراب ہو گئی تھی کافی مہنگی دی تھی اس نے اور لائف ٹائم گارنٹی کے ساتھ۔
شکایت کی تو آئیں بائیں شائیں اور میں نے پھر وہ دونوں کباڑیے کو بیچیں
اب یہ بھائی مجھے سٹیل کی سیفٹی پنز سیل کر رہے تھے
پاس کھڑا سٹال والا بھی بول اٹھا، "اوئے، 20 کی ہے۔"
مگر مجال ہے کہ وہ مانے۔
"یہ اچھی والی ہے،" وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔
میں نے وہ سیفٹی پنز واپس اس کی ٹوکری میں رکھ دی۔
مسئلہ 30، 40 روپے کا نہیں تھا،
غصہ اس بات پر آیا کہ لوگ کسی کی نیکی، کسی کی ہمدردی کو بیوقوفی سمجھتے ہیں۔
تھوڑا سا ناک بھوں چڑھانے کے بعد اس نے شرافت سے پانچ گچھے دے ہی دیے۔
اور سچ تو یہ ہے، مجھے صرف ایک گچھا ہی کافی تھا،
باقی چار صرف اس سے ہمدردی میں خریدے۔
یہ پاکستان کا وہ طبقہ ہے جسے سب سے زیادہ سہارا چاہیے،
لیکن جھوٹ، چالاکی، بے ایمانی یہاں بھی اتنی ہی گہری ہے جتنی اوپر کے طبقات میں۔
جس کا جتنا ہاتھ پڑتا ہے اتنا دا لگاتا ہے
ہاں ایک اور ڈرامہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے بازار میں
چھوٹے بچے آپ کو کہتے ہیں باجی بسکٹ لے لو ہم غریب ہیں
اور ہم ہمدردی کےمارے سوچتے ہیں چلو زیادہ لے لیتے ہیں اس کا بھلا ہو جائے گا
اور وہ محترم چھوٹو سا بچہ آپ کے ہاتھ سے سو کا نوٹ پکڑتا ہے آپ کے ہاتھ پر پانچ روپے والے پانچ بسکٹ رکھتا اور رفو چکر ہو جاتا ہے
اور آپ منہ دیکھتے رہ جاتے ہو
کہیں تو کیا کہیں
اور پھر ہم حکمرانوں کو گالیاں ، غربت کی دہائیاں ، مر گئے رڑ گئے کے نعرے
مگر محنت کر کے حق حلال کی کوئی بھی کھانا نہیں چاہتا
نوٹ: اب کوئی مجھ پر تھوڑ دلی ہونے کا فتویٰ نہ لگائے میں جانتی ہوں یہ باتیں بہت چھوٹی ہیں جن کے بارے میں بات کرتے ہوئے عموما لوگ جھجھکتے ہیں اور اسی بات کا بے ایمان طبقہ فایدہ اٹھاتا ہے
یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی انسان کا مزاج بھی بناتی ہیں اور معاشرے کا بھی.
