"آپ اپنے فیصلوں پر مکمل اختیار نہیں رکھتے۔"
ایک نوبیل انعام یافتہ شخص نے 37 سال سے زیادہ عرصہ لگا کر یہ بات ثابت کی۔
اس نے انسانی فیصلوں میں ایک نفسیاتی کمزوری کو بے نقاب کیا۔
ایک بار جب آپ اس کمزوری کو سمجھ لیتے ہیں، تو آپ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے۔
اور پھر آپ اپنی زندگی کے ہر فیصلے پر شک کرنے لگیں گے۔( یہ ایک تھریڈ ہے، آگے مزید تفصیلات دی جائیں گی)
انسان اپنے فیصلوں پر مکمل اختیار کیوں نہیں رکھتا؟
ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو فیصلے کرتے ہیں، وہ مکمل طور پر ہمارے شعور، عقل، اور منطق پر مبنی ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ ہماری سوچ اور فیصلہ سازی پر کئی نفسیاتی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں جن کا ہمیں ادراک بھی نہیں ہوتا۔ بہت سی بار ہم کسی خاص لمحے کے جذبات، ماحول، یا پہلے کے تجربات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہمارے "اپنے" فیصلے ہیں۔
لیکن دراصل یہ فیصلہ سازی ایک پیچیدہ نفسیاتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے، جس میں شعور سے زیادہ لاشعور کا کردار ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو سمجھنے کے لیے نوبیل انعام یافتہ ماہرِ نفسیات "ڈینیئل کاہنیمن" نے اپنی پوری زندگی تحقیق میں گزاری۔ ان کی تحقیق سے یہ واضح ہوا کہ انسان اکثر دو مختلف نظاموں کے تحت سوچتا ہے: ایک تیز لیکن جذباتی، اور دوسرا سست لیکن منطقی۔ یہ نظام ہمارے فیصلوں کو کس طرح متاثر کرتے ہیں، یہ آگے واضح ہوگا۔
ڈینیئل کاہنیمن نے انسانی دماغ کی سوچنے کی صلاحیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا: سسٹم 1 اور سسٹم 2۔ سسٹم 1 تیز، خودکار، جذباتی، اور غیر شعوری ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ کے فوری فیصلے لینے میں مدد دیتا ہے، جیسے کوئی چیز ہاتھ سے گرنے لگے تو فوراً پکڑنا۔ دوسری طرف، سسٹم 2 سست، منطقی، اور شعوری ہوتا ہے۔ یہ ہمیں پیچیدہ مسائل حل کرنے، منصوبہ بندی کرنے، اور تجزیہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔4
5 مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ عموماً کم توانائی خرچ کرنے کے چکر میں سسٹم 1 پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ یعنی ہم بغیر سوچے سمجھے، عادتاً، یا جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں — اور ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ لیا۔ کاہنیمن کی تحقیق نے دکھایا کہ ہماری اکثر غلطیاں، تعصبات، اور غیر منطقی رویے اسی سسٹم 1 کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ وہ نکتہ ہے جو فیصلہ سازی کو ایک نفسیاتی الجھن بنا دیتا ہے۔
6. دماغی تعصبات اور وہم — ہماری سوچ میں دراڑیں
کاہنیمن اور ان کے ساتھی "ایموس ٹورسکی" نے بہت سے ایسے نفسیاتی تعصبات (biases) کی نشاندہی کی جو انسانی فیصلوں میں دخل انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر "confirmation bias" — یعنی ہم صرف ان معلومات کو اہمیت دیتے ہیں جو ہمارے پہلے سے موجود نظریے کو تقویت دیتی ہیں، اور باقی باتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح "availability heuristic" — ہم انہی چیزوں کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں جو ہمارے ذہن میں تازہ ہوں، چاہے وہ حقیقت میں غیر اہم ہوں۔
ایک اور دلچسپ تعصب ہے "loss aversion" — یعنی ہم نقصان سے بچنے کے لیے فائدے سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کہیں سے 1000 روپے جیتنے کا موقع ملے اور کہیں 1000 روپے کھونے کا خطرہ ہو، تو دونوں ایک جیسے ہونے کے باوجود نقصان کا خوف آپ پر زیادہ اثر ڈالے گا۔ یہ تمام تعصبات ہمارے فیصلوں کو لاشعوری طور پر گمراہ کرتے ہیں، اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے ذہن کے جال میں پھنس چکے ہیں۔
کیا ہم اپنے فیصلوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے: جب ہمارے فیصلے تعصبات، وہم، اور لاشعوری اثرات کا شکار ہوتے ہیں تو کیا ہم ان پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟ جواب سادہ نہیں ہے۔ کاہنیمن کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہم ہر فیصلے پر شک کریں، بلکہ یہ سمجھیں کہ ہم انسان ہونے کے ناطے کہاں کمزور ہیں۔ اگر ہم اپنی نفسیاتی کمزوریوں کو پہچان لیں، تو ہم زیادہ باشعور اور محتاط فیصلے لے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم جان لیں کہ
ہم کسی نئی چیز کے خلاف تعصب رکھتے ہیں تو ہم خود کو کھلا رکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یا اگر ہمیں پتہ ہو کہ ہم زیادہ جذباتی لمحے میں فیصلہ لے رہے ہیں، تو ہم سست ہو کر سسٹم 2 کو فعال کر سکتے ہیں۔ مقصد یہ نہیں کہ ہم جذبات کو ختم کر دیں، بلکہ ان کے اثرات کو پہچان کر عقل سے متوازن فیصلہ کریں۔ اس علم کے ساتھ ہم نہ صرف اپنی زندگی کے بہتر فیصلے لے سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟ عملی سبق
اس سب کا عملی فائدہ کیا ہے؟ سب سے پہلے، خود آگاہی پیدا کریں۔ جب بھی کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو — مثلاً کیریئر کا انتخاب، مالی سرمایہ کاری، یا کسی تعلق میں قدم — خود سے سوال کریں: "کیا میں جذبات میں تو نہیں فیصلہ کر رہا؟ کیا میں صرف اپنی پسندیدہ معلومات پر انحصار کر رہا ہوں؟" دوسرا قدم ہے "غور و فکر کا وقت لینا" — سست فیصلہ، اکثر بہتر فیصلہ ہوتا ہے۔
تیسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے مشورہ لیں، خصوصاً اُن لوگوں سے جو آپ سے مختلف سوچ رکھتے ہوں۔ وہ آپ کو آپ کی تعصبات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اور آخر میں، ہر فیصلے کو سیکھنے کے موقع کے طور پر دیکھیں۔ اگر آپ کو بعد میں معلوم ہو کہ فیصلہ غلط تھا، تو خود کو ملامت نہ کریں — بلکہ یہ سوچیں کہ آپ نے کیا سیکھا۔ کاہنیمن کی تحقیق ہمیں مایوس نہیں کرتی، بلکہ ہمیں بہتر انسان، بہتر سوچنے والے، اور بہتر فیصلہ ساز بننے کا راستہ دکھاتی ہے۔
