شاہد رفیق خان، جو آج دنیا کے کامیاب ترین پاکستانی نژاد ارب پتی شمار ہوتے ہیں، 1967 میں صرف 16 سال کی عمر میں پاکستان کے شہر لاہور سے امریکہ گئے۔ ان کے پاس صرف 500 ڈالر تھے، نہ کوئی جان پہچان، نہ خاندان، اور نہ ہی امریکہ کے بارے میں مکمل معلومات۔ انہوں نے سب سے پہلے ایک سستا سا کمرہ کرائے پر لیا، جو صرف 2 ڈالر فی رات کے حساب
ہوٹل میں تھا۔
اسی پہلی رات، جب وہ ایک اجنبی ملک میں تنہا بیٹھے تھے، اکثر لوگ گھبرا جاتے، لیکن شاہد خان نے خود سے کہا: "یہ سب کچھ میرے لیے بہترین ہے۔ میرے پاس آزادی ہے، اور یہاں مواقع کی کمی نہیں۔" یہ وہ سوچ تھی جو آگے جا کر ان کی کامیابی کی بنیاد بنی۔
کالج مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے ایک آٹو پارٹس بنانے والی کمپنی Flex-N-Gate میں نوکری حاصل کی۔ وہاں کام کرتے ہوئے انہیں ایک اہم چیز کا خیال آیا — وہ یہ کہ ٹرکوں کے بَمپر کئی پرزوں سے مل کر بنتے تھے، جو مہنگے اور کمزور ہوتے تھے۔ شاہد خان نے ایک نیا "ون پیس بَمپر" ڈیزائن کیا، جو سستا، مضبوط اور آسان تھا۔ یہ ڈیزائن اتنا کامیاب ہوا کہ دنیا کی بڑی کمپنی Toyota نے اسے اپنایا، اور یوں شاہد خان کی کمپنی عالمی سطح پر پھیلنے لگی۔
اگلی صبح وہ ایک ریستوران میں برتن دھونے کی نوکری پر لگ گئے، جہاں انہیں فی گھنٹہ 1.20 ڈالر ملتے تھے۔ وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتے رہے، اور سخت محنت کو اپنی عادت بنا لیا۔
ان کا مشہور مونچھوں والا انداز بھی ان کی پہچان بن چکا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ یہ مونچھیں کیوں رکھتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: "یہ مونچھیں میرے ساتھ تب بھی تھیں جب میرے پاس کچھ نہیں تھا، اور اب بھی ہیں۔ یہ مجھے میری اصل یاد دلاتی ہیں۔"
کچھ سال بعد انہوں نے پوری Flex-N-Gate کمپنی خرید لی — وہ بھی بغیر کسی سرمایہ دار یا پارٹنر کے۔ صرف اپنی محنت سے کمائے گئے پیسوں سے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں ایک برتن دھونے والا لڑکا اب ایک عالمی کمپنی کا مالک بن چکا تھا۔
ایک اور دلچسپ لمحہ تب آیا جب شاہد خان نے 2012 میں NFL کی ٹیم Jacksonville Jaguars خریدی۔ وہ نہ صرف پہلے پاکستانی بلکہ پہلے غیر سفید فام مالک بنے۔ ایک پریس کانفرنس میں ان سے پوچھا گیا: "آپ کیسا محسوس کرتے ہیں کہ آپ پہلے نان-وائٹ مالک ہیں؟" شاہد خان نے مسکرا کر جواب دیا: "فٹبال کو آپ کے رنگ سے کوئی غرض نہیں، اسے صرف آپ کی کمٹمنٹ سے مطلب ہے۔" یہ بات وائرل ہو گئی اور ان کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔
شاہد خان کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اصل کامیابی نہ دولت سے آتی ہے، نہ رنگ و نسل سے۔ بلکہ محنت، مستقل مزاجی، اور خود پر یقین سے ہر ناممکن ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
