جنوبی کوریا میں ہزاروں لوگ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ صرف ایک امتحان کی تیاری میں گزار دیتے ہیں۔
نہ یہ ہارورڈ (Harvard) یونیورسٹی کا امتحان ہے،
نہ آکسفورڈ (Oxford) یونیورسٹی کا۔
بلکہ یہ ایک ایسی کمپنی کے لیے ہے جو اسمارٹ فونز سے لے کر شپنگ (جہاز رانی) تک تقریباً ہر چیز پر اختیار رکھتی ہے۔
یہ کمپنی ہے سام سنگ (Samsung)۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ سام سنگ ایک چھوٹی سی کریانہ (گروسری) کی دکان سے ایک عالمی طاقت کیسے بنی:
سام سنگ کی بنیاد 1938 میں لی بیونگ چُل (Lee Byung-chul) نے جنوبی کوریا کے شہر ڈیگو میں رکھی۔ یہ ایک چھوٹی سی گروسری (کریانہ) دکان تھی جو چینی، مچھلی، سبزیاں اور نوڈلز وغیرہ بیچتی تھی۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہی دکان ایک دن دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں شمار ہوگی۔ لی بیونگ چُل کا مقصد ابتدا میں صرف تجارت تھا، لیکن جلد ہی اس نے کاروبار کو وسعت دینے کا سوچا۔ جاپان کی نوآبادیاتی حکومت کے بعد کوریا کو خود کو معاشی طور پر سنبھالنا تھا، اور سام سنگ نے اسی خلا کو پُر کرنے کا عزم کیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کوریا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور معیشت تباہ ہو گئی۔ مگر لی بیونگ چُل نے ہار نہیں مانی۔ اُس نے سام سنگ کو مختلف شعبوں میں پھیلانا شروع کیا، جیسے کپڑا سازی، خوراک کی پیداوار اور مالیات۔ 1950 کی دہائی میں، سام سنگ نے اپنے کاروبار کو مزید بڑھایا اور ایک نئی فیکٹری قائم کی جہاں ٹیکسٹائل تیار ہوتے تھے۔ اس وقت تک سام سنگ صرف ایک تجارتی کمپنی نہیں رہی تھی بلکہ ایک صنعتی گروپ بن چکی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سام سنگ نے کوریا کی اقتصادی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔
1960 کی دہائی میں جنوبی کوریا نے صنعتی ترقی کے لیے ایک قومی منصوبہ بنایا۔ حکومت نے "Chaebol" (چیبول) کہلانے والے بڑے صنعتی خاندانوں کو ترجیح دی۔ سام سنگ ان میں سے ایک نمایاں نام بن کر ابھری۔ لی بیونگ چُل نے الیکٹرانکس کی دنیا میں قدم رکھا اور 1969 میں "Samsung Electronics" کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں یہ کمپنی بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بناتی تھی۔ یہی وہ موڑ تھا جس نے سام سنگ کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں داخل کیا۔ اب سام سنگ صرف ایک تجارتی یا صنعتی گروپ نہیں رہا تھا بلکہ ایک ٹیک کمپنی بننے جا رہا تھا۔
اور 1980 کی دہائی میں سام سنگ نے ٹی وی، وی سی آر، مائیکرو ویو اور ایئر کنڈیشنر جیسے الیکٹرانک مصنوعات بنانا شروع کیں۔ اس دوران جنوبی کوریا بھی تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور سام سنگ اس تبدیلی کا مرکزی کردار بن چکا تھا۔ کمپنی نے تحقیق اور ترقی (R&D) پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی، تاکہ ٹیکنالوجی میں آگے بڑھ سکے۔ اسی دوران لی بیونگ چُل کے بعد اس کے بیٹے، لی کن ہی (Lee Kun-hee) نے کمپنی کا انتظام سنبھالا اور یہ عہد کیا کہ سام سنگ کو ایک عالمی معیار کی کمپنی بنایا جائے گا، نہ کہ صرف مقامی رہنما۔
لی کن ہی نے 1993 میں ایک نیا وژن دیا: "Change everything except your wife and children." یعنی "سب کچھ بدل دو، سوائے اپنی بیوی اور بچوں کے"۔ اس وژن کے تحت کمپنی نے معیار پر زور دیا، اور ناقص مصنوعات پر سخت پابندیاں لگائیں۔ سام سنگ نے اپنی مصنوعات کا عالمی معیار کے مطابق جائزہ لینا شروع کیا، اور جاپان و امریکہ جیسے ممالک کی کمپنیوں سے مقابلہ کرنا سیکھا۔ اس دور میں سام سنگ نے سیمی کنڈکٹر اور میموری چِپس کی پیداوار میں سرمایہ کاری کی، جو مستقبل میں اس کی سب سے بڑی کمائی کا ذریعہ بنیں۔
2000 کی دہائی میں سام سنگ نے موبائل فونز کی مارکیٹ میں تیزی سے ترقی کی۔ ابتدائی طور پر کمپنی نے سادہ فونز بنائے، مگر جلد ہی اس نے اسمارٹ فونز پر توجہ دی۔ 2009 میں پہلا "Galaxy" اسمارٹ فون آیا، اور وقت کے ساتھ Galaxy سیریز نے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کی۔ آج سام سنگ کے اسمارٹ فونز Apple کے iPhone کا بڑا مقابلہ ہیں۔ سام سنگ نے کیمرہ، ڈسپلے، اور بیٹری کی ٹیکنالوجی میں نئی راہیں کھولیں۔ کمپنی نہ صرف فون بناتی ہے بلکہ ان میں استعمال ہونے والی چپس اور اسکرینیں بھی خود تیار کرتی ہے۔
سام سنگ نہ صرف موبائل فون بناتا ہے بلکہ سیمی کنڈکٹرز (chips) بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں شامل ہے۔ یہ چپس تقریباً ہر جدید ڈیوائس میں استعمال ہوتی ہیں، چاہے وہ فون ہوں، لیپ ٹاپ، گاڑیاں یا حتیٰ کہ خلائی ٹیکنالوجی۔ سام سنگ کی میموری چپس — RAM، SSD، اور فلیش اسٹوریج — پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوتی ہیں۔ اس میدان میں سام سنگ نے Intel جیسے عالمی دیو کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی مینوفیکچرنگ فیکٹریاں جنوبی کوریا کے علاوہ امریکہ اور چین میں بھی موجود ہیں، جو اربوں ڈالر کی پیداوار کرتی ہیں۔
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ سام سنگ صرف ایک ٹیکنالوجی کمپنی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک "Conglomerate" یعنی بہت سارے کاروباروں کا مجموعہ ہے۔ سام سنگ شپنگ، تعمیرات، بیمہ، ہوٹلنگ، ہیلتھ کیئر، اور بایوٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں بھی کام کرتی ہے۔ جنوبی کوریا کے بہت سے مشہور مقامات — جیسے دنیا کی سب سے اونچی عمارتوں میں شامل Burj Khalifa (جسے سام سنگ C&T نے تعمیر کیا) — میں بھی اس کا کردار ہے۔ جنوبی کوریا کی معیشت میں سام سنگ کا اتنا اثر ہے کہ لوگ اسے "Samsung-nation" کہہ کر پکارتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں سام سنگ میں نوکری حاصل کرنا ایک خواب جیسا ہے۔ ہزاروں نوجوان سالوں تک صرف اس کمپنی میں ملازمت کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ سام سنگ کا "Global Aptitude Test" (GAT) ایک سخت امتحان ہوتا ہے جس میں ذہانت، منطق، اور شخصیت کی جانچ کی جاتی ہے۔ لوگ کوچنگ سنٹرز جاتے ہیں، اور اس کے لیے خصوصی کتابیں پڑھتے ہیں۔ سام سنگ کی نوکری کا مطلب ہے بہتر مستقبل، معاشی استحکام اور معاشرتی وقار۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمپنی اپنی تنخواہوں، مراعات، اور کام کے ماحول میں بہت آگے ہے۔
آج سام سنگ صرف ایک کمپنی نہیں بلکہ جنوبی کوریا کی پہچان ہے۔ یہ ملک کی معیشت میں تقریباً 20% حصہ ڈالتی ہے، اور دنیا بھر میں کوریا کو جدید ٹیکنالوجی کا نمائندہ بناتی ہے۔ چاہے بات ہو اسمارٹ فونز کی، چِپس کی یا جدید ٹی وی کی، سام سنگ ہمیشہ صفِ اول میں رہا ہے۔ کمپنی نے نہ صرف خود کو عالمی سطح پر منوایا بلکہ جنوبی کوریا کو بھی ٹیکنالوجی اور ترقی کی دنیا میں بلند مقام تک پہنچایا۔ سام سنگ کی کہانی ایک سبق ہے کہ عزم، وژن اور مسلسل محنت سے ایک چھوٹا کاروبار بھی عالمی طاقت بن سکتا ہے۔

