آج اسرائیل کی سابق وزیر اعظم اور عرب اسرائیل جنگ کی فاتح گولڈا مئیر کا یوم پیدائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیدائش: 3 مئی 1898
وفات: 8 دسمبر 1978
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھی عرب اسرائیل جنگ کی فاتح گولڈا مئیر نے کہا تھا:
"تاریخ تمھارے ناشتے کی میز پہ رکھے انڈوں کی نہیں تمھاری فتوحات کی تعداد یاد رکھتی ہے" ۔
👇
گولڈا مئیر 3 مئی 1898 کو روس کے صوبے یوکرائن کے دار الحکومت کیف میں پیدا ہوئی۔
گولڈا مئیر 10 مارچ 1949 سے 19 جون 1956 تک داؤد بن گوریان کے دور حکومت میں وزیر برائے افرادی قوت رہیں۔ 18 جون 1956 سے 12 جنوری 1966 تک وزیر خارجہ کے عہدے پر رہیں۔ 17 مارچ 1969 کو وہ اسرائیل کی چوتھی وزیر اعظم منتخب ہوئیں اور جنگ یوم کپور 1973 کے بعد 3 جون 1974 کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا
جنگ یوم کپور، جنگ رمضان یا جنگ اکتوبر (عربی: حرب أكتوبر) جسے عرب اسرائیل جنگ 1973ء یا چوتھی عرب اسرائیل جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ 6 اکتوبر سے 26 اکتوبر 1973ء کے درمیان مصر و شام کے عرب اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے گولڈا مئیر کی قیادت میں مشترکہ عرب افواج کو شکست فاش دی تھی ۔
یہ شکست کیوں ہوئی تھی اور اسرائیل کے جیتنے کی وجہ کیا تھی۔ آئیے جانتے ہیں:
تاریخ کے ماتھے پر عرب اسرائیل جنگ 1973 کا قلق بھی ہے، مگر اس جنگ کا فاتح صیہونی اسرائیل تھا۔ اس اسرائیل نے عربوں کو کیسے شکست دی؟
موجودہ حکمرانوں کیلئے ایک عبرت آموز واقعہ !! فاتح بننے کا طریقہ !!
یہ ایک تاریخی اور عبرت ناک حقیقت ہے جسے پڑھ کر مجھ جیسے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں نے پچھلے دنوں اس جنگ سے متعلق حقائق جاننے کے لیے کتابیں کھنگالیں تو مجھے ایک کتاب سے اس وقت کی وزیراعظم کا ایک انٹرویو ہاتھ لگ گیا۔ یہ انٹرویو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا، مگر اس انٹرویو کا ایک سوال جتنا دلچسپ تھا اس کا جواب اس سے بھی کہیں دلچسپ تھا۔ صحافی نے اسرائیلی وزیراعظم گولڈا میئر سے پوچھا: ’’آپ نے امریکا سے اسلحے کی خریداری کا فیصلہ کیسے کیا؟‘‘
گولڈا میئر نے کیا جواب دیا میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو اس جواب کا پس منظر بتانا ضروری سمجھتی ہوں۔
عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے سائے چھا گئے۔ اسرائیل پر خوف و اضطراب گہرا ہو گیا۔ اسرائیل کی یہ حالت دیکھتے ہوئے امریکی اسلحہ کمیٹی کا سربراہ بھاگتا ہوا اسرائیل پہنچا۔ اس نے اسرائیلی وزیراعظم سے اس کے گھر میں ملاقات کی۔
یہ 1973ء کی بات ھے۔ عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ ایسے میں امریکی سینیٹر اسرائیل آیا۔ وہ اسلحہ کمیٹی کا سربراہ تھا، اُسے فوراً اسرائیل کی وزیر اعظم "گولڈا مائیر" کے پاس لے جایا گیا۔
گولڈا میئر نے کیا جواب دیا میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو اس جواب کا پس منظر بتانا ضروری سمجھتی ہوں
گولڈا مائیر نے ایک گھریلو عورت کی مانند سینیٹر کا استقبال کیا اور اُسے اپنے کچن میں لے گئی، کچن میں ہی کرسی پر بٹھا دیا اور خود اپنے ہاتھوں سے چائے بنانے میں جت گئی۔ اُس نے امریکی سینیٹر کو ایک چھوٹی سی ڈائینگ ٹیبل کے پاس کرسی پر بٹھا کر، چولہے پر چائے کیلئے پانی رکھ دیا اور خود بھی وہیں آ بیٹھی۔ سینیٹر کے ساتھ اُس نے توپوں، طیاروں اور میزائلوں کا سودا شروع کر دیا۔ ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اُسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اُٹھی اور دو پیالیوں میں چائے اُنڈیلی، ایک پیالی سینیٹر کے سامنے رکھ دی اور دوسری گیٹ پر کھڑے امریکی گارڈ کو تھما دی
پھر خود دوبارہ کرسی پر آ بیٹھی اور امریکی سینیٹر سے محو کلام ہو گئی۔ چائے کی بھاپ اور پھیلتی خوشبو میں دونوں حکام سر جوڑ کر میز پر بیٹھ گئے۔ دونوں اسلحہ کی خریداری پر گفتگو کرتے رہے۔ یہ اسلحہ کس نوعیت کا ہوگا، امریکا کس طرز پر اسلحہ دے گا، اسرائیل کو اس کے لیے کیا کرنا پڑے گا۔ یہ باتیں چلتی رہیں۔
چند لمحوں کی گفت و شنید اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈا مائیر اُٹھی، پیالیاں سمیٹیں اور اُنہیں دھو کر واپس سینیٹر کی طرف پلٹی اور بولی، "مجھے یہ معاہدہ قبول ھے، آپ تحریری معاہدے کیلئے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیجئے" امریکی اہلکار نے کندھے اچکائے، سر جھکا کر شکریہ ادا کیا اور واپس چلا گیا۔
اگلے دن گولڈا میئر نے معاہدہ اپنی کابینہ کے سامنے رکھ دیا۔ کابینہ میں بھونچال آ گیا۔ لے دے شروع ہو گئی۔ وزراء کا کہنا تھا اسرائیل مالی بحران کا شکار ہے۔ حالت پتلی ہونے کی وجہ سے ہم یہ معاہدہ نہیں کر سکتے۔ اگر یہ معاہدہ ہوگیا تو اسرائیلی باشندے دو دن بعد فاقے کا شکار ہو جائیں گے۔ یوں کابینہ نے بیک زبان یہ معاہدہ مسترد کر دیا۔
وزیراعظم گولڈا مئیر پریشان ہو گئی۔ اس نے تھوڑی دیر سوچا اور اس کے بعد کابینہ سے مخاطب ہوئی’’ مائی فرینڈ! آپ غور کیجئے اگر ہم یہ جنگ جیت گئے تو تاریخ ہمیں فاتح کا تاج پہنائے گی۔ جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دے دے تو وہ یہ بھول جاتی ہے جنگ کے دوران فاتح نے کتنے دن فاقہ کیا؟اس کے جوتوں میں کتنے سوراخ تھے یااس کی تلواروں کے نیام پھٹے ہوئے تھے۔ وہ اگر یاد رکھتی ہے تو فاتح کی عظیم فتوحات یاد رکھتی ہے، لہٰذا اگر ہمیں بھوک کاٹنی پڑے تو ہم کاٹیں گے، لیکن ہم یہ معاہدہ ضرور کریں گے۔ یہ ہماری فنا نہیں یہ ہماری بقاء ہے۔‘‘
گولڈا مائیر کی دلیل میں وزن تھا لہٰذا اسرائیلی کابینہ کو اِس سودے کی منظوری دینا پڑی۔
گولڈا میئر کے دلائل کے سامنے کابینہ گنگ ہو گئی اوراسرائیل امریکا ہتھیاروں کی خریداری کا معاہدہ طے پاگیا۔ اسی معاہدے کی وجہ سے اسرائیل عربوں سے یہ جنگ جیت گیا۔
آنیوالے وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ بھی ایک عجیب حقیقت ھے کہ امت مسلمہ کو بیسویں صدی میں ٹکڑوں میں تقسیم کر دینے میں دو عورتوں کا ہاتھ رہا ہے یعنی عربوں کو تقسیم کرنے میں گولڈا مائیر کا اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں اندرا گاندھی کا۔
اب میں دوبارہ آتی ہوں گولڈا میئر کے جواب کی طرف۔ صحافی کے
گولڈا مائیر نے جو جواب دیا وہ چونکا دینے والا تھا، وہ بولی:
" میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں (مسلمانوں) کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے لیا تھا۔ میں جب طالبہ تھی تو مذاھب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ میں نے زمانہ طالب علمی میں مسلمانوں کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)
ان کے گھر میں چراغ کا تیل خریدنے کے لیے رقم تک نہیں تھی، لہٰذا اُن کی اھلیہ عائشہ (صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے اُن کی زرہ بکتر رھن رکھ کر تیل خریدا لیکن اُس وقت بھی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رھی تھیں۔ اس وقت مسلمانوں کے نبی کے گھر میں غربت
گولڈا مائیر نے اِس حقیقت سے تو پردہ اُٹھایا مگر ساتھ ھی انٹرویو نامہ نگار سے درخواست کی کہ "اِس انٹرویو کو " آف دی ریکارڈ " رکھا جائے اور شائع نہ کیا جائے۔"
وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا نام لینے سے جہاں اس کی قوم اس کے خلاف ہو سکتی ھے، وہاں
گولڈا مئیر کا انٹرویو کرنے والے نے مزید کہا:
”میں نے اس واقعے کے بعد جب تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا، تو میں عرب بدوؤں کی جنگی حکمت عملیاں دیکھ کر حیران رہ گیا، کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ طارق بن زیاد جس نے جبرالٹر (جبل الطارق) کے راستے اسپین فتح کیا تھا، اس کی فوج کے آدھے سے
Show more
Umm
یہ حیرت انگیز واقعہ تاریخ کے دریچوں سے جھانک جھانک کر مسلمانان عالم کو جھنجھوڑ رہا ہے، بیداری کا درس دے رہا ہے، ہمیں سمجھا رہا ہے کہ ادھڑی عباؤں اور پھٹے جوتوں والے گلہ بان، چودہ سو برس قبل کس طرح جہاں بان بن گئے؟ ان کی ننگی تلوار نے کس طرح چار براعظم فتح کر لئے؟ اگر پُرشکوہ
آہ ! وہ تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔
آہ ! وہ تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔
پھر معتصم سے کہا: ’’ جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے کھاؤ !‘‘
بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا:
’’ میں سونا کیسے کھاؤں؟ ‘‘
ہلاکو نے فوراً کہا ’’ پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟‘‘
وہ مسلمان جسے اُس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ پھر ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ’’تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟‘‘
خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔ ’’ اللہ کی یہی مرضی تھی ‘‘۔
ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ’’ پھر جو تمہارے ساتھ ہونیوالا ہے ، وہ بھی خدا کی مرضی ہو گی‘‘۔
پھر ہلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔
ہلاکو نے کہا ’’ آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔
تاریخ تو فتوحات گنتی ہے ۔ محل، لباس، ہیرے، جواہرات لذیز کھانے نہیں۔ اگر ہم ذرا سی بھی عقل و شعور سے کام لیتے تو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا آفتاب کبھی غروب نہ ہوتا۔
اندازہ کریں جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے، تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لیکر اپنی محبت کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا۔
جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے۔ تب یہاں تان سین جیسے گویے نئے نئے راگ ایجاد کر رہے تھے۔ جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے، ہمارے اَرباب و اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔
تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بکھر گیا، کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟ درباروں میں خوشامدیوں ، مراثیوں ، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟
یا د رکھیے !! تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عُذر قبو ل نہیں کرت
افسوس صد افسوس ! سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یہودی عورت نے تو سبق حاصل کر لیا۔ مگر مسلمان اِس پہلو سے نا آشنا رہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی، علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی بجائے لاحاصل بحثوں اور غیر ضرروی کاموں میں مگن رہے۔ چنانچہ زوال ہمارا مقدر ٹھہرا۔ کیونکہ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے اور وہ کبھی عُذر قبول نہیں کرتی۔
یہ ایک تاریخی اور عبرت ناک حقیقت ہے جسے پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سوچئے غیر مسلم دنیا اور اس کے حکمران ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، ان کے قول مبارکہ اور ان کے افعال مبارکہ کا کس طرح تجزیہ کرتے ہیں اور یہ لوگ کیوں دنیا پر غالب ہیں۔
