اسلامی تاریخ بہادری، فہم و فراست، اور جذبۂ جہاد سے بھرپور واقعات سے مزین ہے، لیکن ان واقعات میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی شجاعت اور عسکری صلاحیت ایک روشن ستارے کی مانند چمکتی ہے۔ آپ کو "سیف اللہ" یعنی "اللہ کی تلوار" کا لقب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ اس لقب کے پیچھے جو بہادری، بصیرت، اور اللہ پر کامل بھروسے کا مظاہرہ ہے، اُس کا عملی اظہار ہمیں جنگ موتہ کے واقعے میں بخوبی ملتا ہے۔
جنگ موتہ کا پس منظر
سن 8 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وفد کو بصریٰ (موجودہ اردن) کے نواح میں اسلامی دعوت کے لیے روانہ فرمایا۔ جب یہ قاصد حضرت حارث بن عمیرؓ، سرحد کے قریب پہنچے تو رومیوں کے گورنر شرحبیل بن عمرو نے نہ صرف انہیں قتل کیا بلکہ اس عمل کو کھلی دشمنی قرار دیا گیا، کیونکہ اسلامی شریعت اور عالمی روایات کے مطابق سفیروں کو قتل کرنا ایک سنگین جرم سمجھا جاتا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم کا جواب دینے کے لیے تین ہزار صحابہ پر مشتمل لشکر روانہ فرمایا۔ اس لشکر کی قیادت کے لیے آپ نے ترتیب وار تین سردار مقرر کیے:
1. حضرت زید بن حارثہؓ
2. حضرت جعفر بن ابی طالبؓ
3. حضرت عبداللہ بن رواحہؓ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اگر زید شہید ہوں تو جعفر، اور اگر جعفر شہید ہوں تو عبداللہ بن رواحہ، اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مسلمان جسے چاہیں امیر بنا لیں۔"
(سیرت ابن ہشام، جلد 2
جنگ کا آغاز اور کمان حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھ
رومی لشکر ایک لاکھ سے زائد سپاہیوں پر مشتمل تھا، جبکہ مسلمان صرف تین ہزار تھے۔ دونوں لشکر "موتہ" کے میدان میں آمنے سامنے ہوئے۔
پہلے حضرت زید بن حارثہؓ نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے، پھر حضرت جعفر طیارؓ نے علم سنبھالا۔ ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو علم کو بائیں ہاتھ سے تھاما، وہ بھی کٹ گیا تو بازووں کے سہارے علم کو سینے سے لگایا اور جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے علم تھاما اور شہید ہوئے۔
اب لشکر اسلامی بغیر سالار کے تھا۔ اس نازک موقع پر صحابہؓ نے متفقہ طور پر حضرت خالد بن ولیدؓ کو سپہ سالار منتخب کیا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کا عظیم عسکری کارنامہ
حضرت خالدؓ نے میدان جنگ کا جائزہ لیا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے سامنے ایک منظم، جدید اسلحے سے لیس، اور تعداد میں کئی گنا بڑا رومی لشکر کھڑا ہے۔ لیکن وہ نہ گھبرائے، نہ پیچھے ہٹے۔ انہوں نے اپنی عسکری ذہانت سے وہ حکمت عملی اپنائی جس نے تاریخ میں ان کا نام امر کر دیا۔
1. دستوں کی نئی ترتیب:
حضرت خالد بن ولیدؓ نے رات کے اندھیرے میں اسلامی فوج کی ترتیب بدل دی تاکہ دشمن یہ سمجھے کہ کمک پہنچ چکی ہے۔ اگلے دن صبح ہوتے ہی انہوں نے دائیں اور بائیں بازو کی پوزیشن بدل دی، اور پچھلی صفوں کو آگے کر دیا تاکہ رومیوں کو یہ تاثر ملے کہ ایک تازہ دم فوج آگئی ہے۔
2. حملے اور پسپائی کی حکمت عملی:
انہوں نے دشمن پر بھرپور حملہ کیا، پھر دھیرے دھیرے پیچھے ہٹتے گئے تاکہ رومیوں کو اپنی فتح کا گمان ہو۔ اسی دوران حضرت خالدؓ نے ایسا راستہ منتخب کیا جس سے اسلامی لشکر آسانی سے محفوظ مقام تک پہنچ سکے۔
3. میدان سے واپسی - حکمت کے ساتھ:
اس حکمت عملی کے باعث اسلامی لشکر نہ صرف مکمل تباہی سے بچ گیا بلکہ دشمن کے دلوں میں بھی اپنا رعب بٹھا گیا۔ حضرت خالدؓ کی اس قائدانہ صلاحیت کے نتیجے میں تین ہزار کا لشکر لاکھوں کے سامنے نہ صرف ثابت قدم رہا بلکہ محفوظ واپس بھی آیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردعمل
جب مدینہ میں لشکر واپس پہنچا تو کچھ لوگوں نے کہا:
"فرار ہوئے!"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"نہیں، بلکہ وہ اللہ کے شیر ہیں۔ خالد، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جسے اللہ نے کفار پر نازل فرمایا۔"
(بخاری، حدیث 4269)
اسی دن سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو "سیف اللہ" یعنی "اللہ کی تلوار" کا لقب عطا ہوا، جو قیامت تک ان کے نام کا حصہ بن گیا۔
