چینی جاسوسوں کی چالاکی کا کوئی جواب نہیں۔
1983 میں "شی پے پُو" (Shi Pei Pu) نامی ایک شخص پکڑا گیا
سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ 20 سال تک ایک فرانسیسی سفارتکار (French diplomat) یہ سمجھتا رہا کہ شی پے پُو ایک عورت ہے — اور یہ بھی کہ اس کے بچے کا باپ وہ خود ہے!
لیکن حقیقت یہ تھی کہ شی پے پُو اصل میں ایک مرد تھا۔
یہ کہانی تاریخ کے سب سے چالاک جاسوسوں میں سے ایک کی ہے۔
چینی جاسوسی کی تاریخ میں بے شمار نام آتے ہیں، لیکن شی پے پُو کا قصہ سب سے منفرد اور حیران کن ہے۔ یہ کہانی نہ صرف جاسوسی کی ہوشیاری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ انسانی جذبات اور دھوکہ دہی کی ایک عجیب مثال بھی ہے۔ شی پے پُو نے اپنی شناخت اور جنس چھپا کر ایک فرانسیسی سفارتکار کو 20 سال تک دھوکہ دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف اُس وقت کے سفارتی حلقوں میں سنسنی پھیلانے کا باعث بنا بلکہ آج تک اسے دنیا کی سب سے چالاک جاسوسی کہانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ آئیے اس ناقابلِ یقین داستان کی تفصیل میں چلتے ہیں۔
شی پے پُو 1938 میں چین میں پیدا ہوا۔ وہ ایک باصلاحیت اداکار اور نقال تھا، جس نے اپنی نوجوانی میں ہی فنِ تاثر (impersonation) میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ اپنی شکل و صورت، نازک انداز اور اداکاری کی صلاحیتوں کی بدولت وہ عورت کا روپ اختیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔ شی پے پُو کی ذہانت، چالاکی اور موقع شناسی نے اسے چینی خفیہ اداروں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بنا دیا۔ اسے خاص طور پر حساس مقاصد کے لیے تربیت دی گئی۔ اس کا مشن تھا کہ مغربی دنیا سے قیمتی راز حاصل کرے اور چین کی حکومت کو منتقل کرے۔
1970 کی دہائی کے اوائل میں شی پے پُو کی ملاقات ایک فرانسیسی سفارتکار برنارڈ بُروسیکو (Bernard Boursicot) سے ہوئی۔ بُروسیکو بیجنگ میں فرانس کے سفارت خانے میں کام کر رہا تھا۔ شی پے پُو نے خود کو ایک مظلوم چینی عورت کے طور پر پیش کیا، جو مبینہ طور پر ثقافتی انقلاب میں مشکلات کا شکار تھی۔ اس نے بُروسیکو کی ہمدردی حاصل کی اور آہستہ آہستہ اسے محبت کے جال میں پھانس لیا۔ بُروسیکو کو یقین دلا دیا گیا کہ شی پے پُو ایک عورت ہے اور دونوں کے درمیان ایک رومانوی تعلق قائم ہو گیا۔
چند سالوں بعد شی پے پُو نے برنارڈ بُروسیکو کو بتایا کہ اس کا ایک بیٹا بھی ہے، جو ان دونوں کے تعلق کا نتیجہ ہے۔ اس بچے کو اس نے "جان لیک" کا نام دیا۔ بُروسیکو خوشی خوشی اس خبر کو قبول کر گیا۔ اصل میں، یہ بچہ شی پے پُو نے ایک یتیم خانے سے حاصل کیا تھا تاکہ کہانی کو مزید معتبر بنایا جا سکے۔ بُروسیکو نے کبھی شک نہیں کیا، کیونکہ وہ پہلے ہی شی پے پُو کی کہانی پر اندھا اعتماد کر چکا تھا۔ یہی چالاکی شی پے پُو کی کامیاب جاسوسی کا بنیادی ستون بنی۔
محبت اور باپ بننے کے جذبات میں بہہ کر بُروسیکو نے شی پے پُو کو قیمتی سفارتی دستاویزات اور حساس معلومات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ بُروسیکو کا ماننا تھا کہ وہ اپنے محبوب اور اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے یہ سب کر رہا ہے۔ شی پے پُو ان معلومات کو چینی حکومت تک پہنچاتا رہا۔ اس طرح ایک ذاتی تعلق کو بنیاد بنا کر شی پے پُو نے مغربی دنیا سے قیمتی راز چینی حکام تک منتقل کیے، اور کئی سالوں تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
آخرکار 1983 میں فرانسیسی خفیہ اداروں کو شبہ ہوا کہ معلومات کا رساؤ ہو رہا ہے۔ ایک طویل تحقیق اور نگرانی کے بعد، برنارڈ بُروسیکو اور شی پے پُو دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ جب ان پر تفتیش کے دوران حقیقت کھلی کہ شی پے پُو دراصل ایک مرد ہے، تو نہ صرف فرانسیسی حکام بلکہ خود بُروسیکو بھی صدمے میں آ گیا۔ بُروسیکو نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ اسے کبھی شک بھی نہیں ہوا تھا کہ شی پے پُو عورت نہیں ہے۔ یہ واقعہ دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بن گیا۔
گرفتاری کے بعد شی پے پُو اور بُروسیکو پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے انہیں جاسوسی کے جرم میں مجرم قرار دیا اور سزائیں سنائیں۔ بُروسیکو کو بھی یہ سمجھایا گیا کہ وہ دانستہ طور پر معلومات فراہم کرتا رہا، چاہے اس نے جذباتی دھوکہ کھایا ہو۔ شی پے پُو کو چینی حکومت کے لیے کام کرنے اور مغربی راز چرا کر پہنچانے کا مجرم قرار دیا گیا۔ اس مقدمے نے دنیا بھر میں بحث چھیڑ دی کہ جذبات کو کیسے ہتھیار بنا کر خفیہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
شی پے پُو کو سزا پوری کرنے کے بعد رہائی ملی۔ اس نے پیرس میں ایک پرسکون زندگی گزارنے کی کوشش کی اور ایک معمولی اداکار کے طور پر کام کیا۔ اس کی زندگی پر کئی کتابیں اور فلمیں بنیں، جن میں اس کی ناقابلِ یقین کہانی کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ برنارڈ بُروسیکو بھی قید سے نکل کر ایک خاموش زندگی گزارنے لگا۔ تاہم ان دونوں کی کہانی ہمیشہ ایک عبرت ناک مثال کے طور پر یاد کی جاتی ہے، کہ کیسے محبت، بھروسہ اور جذبات کو ایک طاقتور ہتھیار میں بدلا جا سکتا ہے۔
شی پے پُو کی کہانی نے دنیا بھر کے فنکاروں، فلم سازوں اور مصنفین کو متاثر کیا۔ 1988 میں ایک مشہور تھیٹر پلے اور پھر 1993 میں "M. Butterfly" کے نام سے ایک فلم بھی بنی، جس کی کہانی شی پے پُو کی زندگی سے متاثر تھی۔ اس کہانی نے مغربی دنیا میں نہ صرف جاسوسی پر بلکہ جنس اور شناخت کے مسائل پر بھی نئی بحثوں کو جنم دیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ معلومات کی دنیا میں صرف ہتھیار یا ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ انسانی جذبات اور بھروسہ بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
شی پے پُو کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ذہانت اور چالاکی کا استعمال کس حد تک ممکن ہے۔ اس نے اپنی ذہانت، جذباتی سمجھ بوجھ اور اداکاری کی مہارت سے نہ صرف ایک فرد کو دھوکہ دیا بلکہ ایک عالمی طاقت کے راز بھی اگلوا لیے۔ اس کہانی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اعتماد سب سے قیمتی اور نازک چیز ہے، اور جب اسے غلط طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ شی پے پُو کی داستان آج بھی دنیا میں سب سے شاطر جاسوسی کہانیوں میں شمار ہوتی ہے۔
