💓 پابندی کی اوقات 💓
✨ طنز و مزاح 😊🤣
💮ڈاکٹر محمد یونس بٹ💮
میں وقت کا اس قدر پابند تھا کہ عین اس وقت دوسروں کے گھر پہنچتا، جب وہ کھانا شروع کرنے لگتے۔ لیکن جب سے میرے پروفیسر دوست ایک تقریب میں پابندی وقت پر تقریر کرکے لوٹے ہیں، میں نے اس پابندی سے آزادی کا اعلان کر دیا ہے۔
پروفیسر موصوف مقامی کالج میں لیکچرار ہیں۔ لیکچرار کی تعریف یہ ہے کہ وہ شخص جو دوسروں کی نیند میں بولتا ہے۔ لیکن ہمارے پروفیسر صاحب کی کلاس میں تو کوئی نہیں سو سکتا۔ بہت بلند بولتے ہیں۔ جب وہ میرے کلاس فیلو تھے، تب بھی کلاس میں کسی کو سونے نہ دیتے۔ ان کے خراٹوں کی وجہ سے پاس سوئے ہوئے کی فوراً آنکھ کھل جاتی۔ جب سے پروفیسر طاہر القادری صاحب نے لیکچرار اور پروفیسر کے فرق کو ختم کیا ہے، وہ بھی پروفیسر کہلانے لگے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہی نہیں خود کو پائے کا لیڈر بھی سمجھتے ہیں۔ یوں ہمارے ہاں چھوٹے پائے بڑے پائے کے لیڈر ہی ہیں بڑے سر کے لیڈر کم ہیں۔
انہیں ایک کونسلر نے پابندی وقت پر تقریر کرنے کے لیے اپنے محلے میں بلایا۔ پروفیسر صاحب اس قدر بااصول ہیں کہ ٹریفک کی سرخ بتی پر سائیکل کو لٹا کر کپڑے جھاڑتے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ بتی سبز ہوتی ہے تو سائیکل پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، بتی پھر سرخ ہو جاتی ہے اور وہ وہیں لال پیلے ہوتے رہتے ہیں۔ اس قدر تیز چلتے ہیں کہ جب تک آپ رک نہ جائیں، آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ چل رہے ہیں۔ بال بنانے میں اتنی دیر لگاتے ہیں جتنی امجد اسلام امجد، جو ہر بال سنوارنے میں آدھ منٹ لگاتے ہیں، یوں انہیں صرف بال سنوارنے میں دس منٹ لگتے ہیں جب کہ پروفیسر صاحب کو بھی لگتے تو دس منٹ ہی ہیں مگر یہ بال سنوارنے میں نہیں، بال ڈھونڈنے میں لگتے ہیں۔ شیو یوں آہستہ آہستہ کرتے ہیں کہ جتنی دیر میں شیو مکمل کرتے ہیں، اتنی دیر میں وہ دوبارہ اتنی ہی بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ’’فارغ البال‘‘ ہونے کی وجہ سے انہیں منہ بھی دور تک دھونا پڑتا ہے۔ سو ابھی انہوں نے منہ دھونا شروع ہی کیا تو میں نے برین واشنگ شروع کردی، یوں بھی برین واشنگ آج کل اتنی اہمیت حاصل کرگئی ہے کہ امریکہ میں ۹۴ فی صد گھرانوں میں ٹی وی سیٹ تو موجود ہیں مگر نہانے کے ٹب صرف ۹۱ فیصد گھرانوں میں ہیں۔