عمان نے گوادر انڈیا کو بیچنے کی کوشش کی تھی لیکن جواہر لعل نہرو نے یہ آفر مسترد کردی تھی ۔ آج انڈیا میں اس وجہ سے نہرو پر سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے۔1783ء میں عمان کے سلطان بیدخل ہوکر یہاں آئے۔ خان آف قلات نے گوادر ان کو بطور جاگیر دے دیا۔سلطان نے جب عمان میں سلطنت واپس حاصل کی تو گوادر کو عمان میں شامل کرلیا۔یوں گوادر تقریباً 175 سال تک عمان کے پاس رہا۔ عمانی حکومت یہاں سے نہ صرف ٹیکس وصول کرتی تھی بلکہ اس کا گورنر، انتظامیہ اور فوجی عملہ بھی عمانی ہی ہوتے تھے۔ گوادر میں عمانی کرنسی چلتی تھی اور لوگ عمان کے شہری کہلاتے تھے۔
یہ قبضہ برطانوی راج کے زمانے میں بھی برقرار رہا کیونکہ برطانوی حکومت نے عمانی سلطنت کے اس قبضے کو تسلیم کیا ہوا تھا۔
جب پاکستان بنا تو پھر ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوا جب پاکستان نے عمان سے رابطہ کیا تو عمان کا جواب حیران کن تھا
اس سے پہلے 1950ء کے عشرے میں جب پاکستان بن چکا تھا، تو عمانی حکومت نے مالی مشکلات کے باعث گوادر کو فروخت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمان نے گوادر سب سے پہلے بھارت کے اُس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی۔
لیکن نہرو نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ بھارتی مؤرخ ایس جی جسوال اپنی کتاب "Indian Ocean and India's Security" میں لکھتے ہیں کہ:
"نہرو کی حکومت گوادر کو بھارت کا حصہ بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی کیونکہ وہ اس خطے کو اسٹریٹجک اہمیت دینے کے حق
میں نہیں تھے۔"
پاکستان نے 4 سال طویل مذاکرات کے بعد گوادر خریدا
پاکستان نے 1954 میں باقاعدہ طور پر عمان سے گوادر کے حصول کیلئے مذاکرات کا آغاز کیا۔ یہ مذاکرات انتہائی پیچیدہ اور صبر آزما تھے کیونکہ عمان ابتدائی طور پر گوادر کی قیمت بہت زیادہ مانگ رہا تھا۔
بالآخر 8 ستمبر 1958 کو پاکستان اور سلطنت عمان کے درمیان معاہدہ طے پایا اور پاکستان نے 3 ملین برطانوی پاؤنڈز کے عوض گوادر خرید لیا۔ اُس وقت کے وزیر خارجہ فیروز خان نون نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اگر موجودہ کرنسی ریٹ کے مطابق اس رقم کا اندازہ لگایا جائے تو یہ رقم آج کے دور میں تقریباً ساڑھے پانچ ارب پاکستانی روپے سے زائد بنتی ہے۔ اُس زمانے میں یہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کیلئے ایک بڑی ادائیگی تھی لیکن اس کی اسٹریٹجک اور اقتصادی اہمیت نے اس خریداری کو تاریخ کے بہترین سودوں میں تبدیل کردیا۔
3 اکتوبر 1958 کو گوادر کو باقاعدہ پاکستان کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ پاکستان کی نیوی نے یہاں کنٹرول سنبھالا اور رفتہ رفتہ اسے بلوچستان میں ضم کردیا گیا۔ گوادر کے عوام نے خوشی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی کیونکہ اُن کے قبائلی، لسانی اور ثقافتی رشتے پہلے ہی بلوچستان کے دیگر علاقوں سے جڑے ہوئے تھے۔
آج گوادر نہ صرف پاکستان کا اہم ترین بندرگاہی شہر ہے بلکہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) اور دنیا کے بڑے تجارتی منصوبوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں گوادر پورٹ، انٹرنیشنل ایئرپورٹ، فری زون، اور ایکسپریس ویز جیسے منصوبے مستقبل میں پاکستان کی معیشت کا چہرہ بدل سکتے ہیں۔
گوادر کی وہ زمین جو ایک وقت میں غیر ملکی سلطنت کے پاس تھی، آج پاکستان کے ہاتھ میں ایک انمول اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔
حوالہ جات
Gazetteer of the Persian Gulf by J.G. Lorimer
Indian Ocean and India's Security by S.G. Jassal
Dawn Newspaper Archives, 9 September 1958
Ministry of Foreign Affairs, Government of Pakistan, Archives 195
گوادر کی خریداری کے وقت پاکستان حکومت کے پاس اتنے بڑے زرمبادلہ ذخائر نہیں تھے کہ 3 ملین برطانوی پاؤنڈ (یعنی آج کے دور میں ساڑھے 5 ارب روپے سے زیادہ) فوری ادا کرسکے۔
اس موقع پر سر آغا خان III سلطان محمد شاہ نے ذاتی طور پر آگے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی اور گوادر کی خریداری کیلئے ایک بڑا حصہ ڈونیشن کے طور پر ادا کیا۔
پاکستان کے ممتاز بزنس مین، سیاستدان اور اُس وقت کے گورنر سندھ سیٹھ یوسف ہارون نے بھی 3 ملین پاؤنڈز کی رقم میں حصہ ڈالا۔
سر آغا خان کا تاریخی جملہ:
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اتنی بڑی رقم کیوں دی؟
تو ان کا جواب تھا:
"پاکستان میرا وطن ہے، اور گوادر اس کے تاج کا وہ ہیرا ہے جو اس قوم کے ماتھے پر چمکے گا۔"
(یہ روایت کئی اسماعیلی ذرائع اور تاریخی رپورٹس میں موجود ہے)
حوالہ جات:
Dawn Newspaper — 8 September 2008, Special Report on Gwadar
The Aga Khan Development Network (AKDN) — Historical Contributions Section
Pakistan Year Book — 1959 Edition
Gulf News — History of Gwadar Deal
