منہ سے سانس لینا ایک عام مگر نقصان دہ عادت ہے جس کا لوگ اکثر شعور نہیں رکھتے۔ یہ عادت آہستہ آہستہ جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ جب ہم ناک کے بجائے منہ سے سانس لیتے ہیں تو ہوا فلٹر کیے بغیر جسم میں داخل ہوتی ہے، جو کئی طبی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ ناک نہ صرف ہوا کو صاف کرتی ہے بلکہ اسے گرم اور نمی فراہم بھی کرتی ہے۔ اس کے برعکس منہ سے سانس لینا قدرتی نظام میں خلل پیدا کرتا ہے اور طویل مدت میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے، جن میں نیند کی خرابی، تھکن اور قوتِ مدافعت کی کمزوری شامل ہیں۔
منہ سے سانس لینے کا سب سے پہلا اور فوری اثر نیند پر پڑتا ہے۔ سوتے وقت اگر انسان منہ سے سانس لے رہا ہو تو اسے گہری اور پُرسکون نیند نہیں آتی۔ ایسے افراد کو نیند کے دوران بار بار جاگنے، خراٹوں اور سانس رکنے جیسے مسائل ہوتے ہیں، جنہیں "سلیپ ایپنیا" کہا جاتا ہے۔ ناک کے ذریعے سانس لینا دماغ کو مناسب آکسیجن فراہم کرتا ہے، جبکہ منہ سے سانس لینے سے یہ عمل متاثر ہوتا ہے۔ نیند کی یہ خرابیاں روزمرہ زندگی میں تھکن، چڑچڑاہٹ، یادداشت کی کمزوری اور توجہ کی کمی جیسے مسائل کا باعث بنتی ہیں، جو کارکردگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
منہ سے سانس لینے والے افراد اکثر خود کو سست، تھکا ہوا اور بےجان محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناک سے سانس لینے سے آکسیجن مؤثر طریقے سے جسم میں جذب ہوتی ہے، جبکہ منہ سے سانس لینے میں یہ عمل کمزور ہوتا ہے۔ آکسیجن کی کمی کا مطلب ہے کہ جسم اور دماغ کو توانائی نہیں ملتی، جس سے تھکن بڑھتی ہے۔ جو افراد جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، ان کے لیے یہ عادت اور بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے کیونکہ ان کی کارکردگی اور برداشت کم ہو جاتی ہے۔ یوں یہ عادت صرف روزمرہ زندگی کو نہیں بلکہ جسمانی صحت اور فٹنس کو بھی متاثر کرتی ہے۔
طویل عرصے تک منہ سے سانس لینے کا ایک دلچسپ مگر سنجیدہ اثر چہرے کی ساخت پر پڑتا ہے، خاص طور پر بچوں میں۔ اس عادت سے جبڑے، دانت اور ناک کی ہڈیوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے، جس سے چہرہ لمبا، جبڑا پیچھے کو اور دانت ٹیڑھے ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ناک سے سانس لینا چہرے کی متوازن نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ بچوں میں اگر یہ عادت جلدی نہ چھوڑی جائے تو بڑے ہو کر اس کا علاج مہنگا اور مشکل ہو جاتا ہے۔ بالغ افراد میں بھی چہرے کی ساخت میں تبدیلی، جلد کا سوکھنا اور ہونٹوں کا پھٹنا عام ہو جاتا ہے۔
بچوں میں منہ سے سانس لینے کی عادت بہت جلد جسمانی اور ذہنی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ ایسے بچے اسکول میں سست، کم توجہ دینے والے اور سیکھنے میں کمزور نظر آتے ہیں۔ ان کی نیند پوری نہ ہونے کے سبب وہ چڑچڑے، غیر متوازن اور سماجی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے چہرے کی ساخت اور دانتوں کی ترتیب بھی متاثر ہوتی ہے، جو آگے چل کر خود اعتمادی پر اثر ڈالتی ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اگر بچے کا منہ سوتے وقت کھلا رہتا ہے یا دن میں اکثر منہ سے سانس لیتا ہے تو فوراً معالج سے رجوع کریں۔
یہ عادت عام طور پر ناک کی بندش، الرجی، ناک کی ہڈی کا ٹیڑھا ہونا، بار بار نزلہ زکام، یا منہ کے پٹھوں کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پیدائشی طور پر یا کسی چوٹ کی وجہ سے ناک سے آسانی سے سانس نہیں لے پاتے، جس کے باعث وہ لاشعوری طور پر منہ سے سانس لینا شروع کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ عادت بچپن میں دانت نکالنے کے دوران بنتی ہے اور پھر پوری زندگی ساتھ رہتی ہے۔ شناخت کے بغیر اس عادت کو چھڑانا مشکل ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ بنیادی وجہ تلاش کر کے اس کا علاج کیا جائے۔
اگر آپ یا آپ کا بچہ نیند کے دوران خراٹے لیتا ہے، جاگنے پر منہ خشک ہوتا ہے، یا دن میں سستی محسوس ہوتی ہے تو ممکن ہے منہ سے سانس لینے کی عادت ہو۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ناک سے سانس لینے کی مشق کریں، اگر ناک بند محسوس ہو یا سانس لینے میں مشکل ہو تو یہ ایک اشارہ ہو سکتا ہے۔ دن میں اکثر منہ کھلا رہنا بھی ایک علامت ہے۔ بچوں میں ناک رگڑنا، نیند میں بار بار کروٹیں لینا یا ناک چڑھانا بھی منہ سے سانس لینے کی علامات ہو سکتی ہیں۔ تشخیص کے لیے ماہر ناک، کان، گلا (ENT) سے رجوع کرنا بہتر ہے۔
سب سے پہلے تو ناک کی رکاوٹ دور کرنے کے لیے دوا یا سرجری کروائی جا سکتی ہے۔ الرجی کی صورت میں اینٹی الرجی ادویات دی جاتی ہیں۔ ناک سے سانس لینے کی مشقیں جیسے "بٹی کو" (Buteyko) یا "نصلی تنفس" (nasal breathing) کی ٹریننگ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ سوتے وقت منہ بند رکھنے کے لیے ٹیپ یا خاص ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ ماہر کی نگرانی میں کرنا چاہیے۔ بچوں میں ارتھوڈونٹک علاج سے دانتوں اور جبڑے کی ساخت درست کی جا سکتی ہے۔ سب سے اہم چیز آگاہی اور مستقل مزاجی ہے، کیونکہ یہ عادت وقت اور محنت سے ہی چھوٹتی ہے۔
سب سے پہلے تو ناک کی رکاوٹ دور کرنے کے لیے دوا یا سرجری کروائی جا سکتی ہے۔ الرجی کی صورت میں اینٹی الرجی ادویات دی جاتی ہیں۔ ناک سے سانس لینے کی مشقیں جیسے "بٹی کو" (Buteyko) یا "نصلی تنفس" (nasal breathing) کی ٹریننگ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ سوتے وقت منہ بند رکھنے کے لیے ٹیپ یا خاص ماسک بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ ماہر کی نگرانی میں کرنا چاہیے۔ بچوں میں ارتھوڈونٹک علاج سے دانتوں اور جبڑے کی ساخت درست کی جا سکتی ہے۔ سب سے اہم چیز آگاہی اور مستقل مزاجی ہے، کیونکہ یہ عادت وقت اور محنت سے ہی چھوٹتی ہے۔