اسلام سے پہلے کا عرب"
عرب ایک خشک، گرم اور ریگستانی علاقہ تھا۔ عرب کی سرزمین زیادہ تر پہاڑیوں، ریت کے میدانوں اور بنجر زمینوں پر مشتمل تھی۔ یہاں بارش بہت کم ہوتی تھی، اور پانی کے چشمے بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ زیادہ تر لوگ کنوؤں کے پانی پر انحصار کرتے تھے۔ یہاں سبزہ کم تھا، اس لیے کاشتکاری بہت محدود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ زیادہ تر خانہ بدوش زندگی گزارتے، یعنی ایک جگہ نہ ٹھہرتے، بلکہ پانی اور چارے کی تلاش میں گھومتے رہتے۔ ان کی زندگی سخت تھی، لیکن اسی سختی نے ان میں صبر، جفاکشی، اور بہادری پیدا کر دی تھی۔
اس دور میں پورا عرب قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ ہر قبیلہ ایک بڑے خاندان کی طرح ہوتا، جس میں درجنوں شاخیں اور گھرانے شامل ہوتے تھے۔ قبیلے کا سربراہ، جسے سردار کہا جاتا، سب کا بڑا ہوتا اور اس کے فیصلے کو سب مانتے تھے۔ قبیلے کا نام ہی انسان کی پہچان تھا۔ قبیلے کے افراد ایک دوسرے کا ہر حال میں ساتھ دیتے، چاہے وہ حق پر ہوں یا ناحق پر۔ قبیلے کے بغیر کوئی فرد
کمزور اور بے بس سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ قبیلے کے مفاد کو ذاتی مفاد سے مقدم رکھتے تھے۔
مکہ شہر، جو عرب کے وسط میں واقع تھا، ایک مقدس مقام سمجھا جاتا تھا، کیونکہ وہاں خانہ کعبہ موجود تھا۔ خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے اللہ کے حکم سے بنایا تھا، اور عرب کے لوگ اسے بہت عزت دیتے تھے۔ قریش قبیلہ، جو مکہ میں آباد تھا، خانہ کعبہ کی خدمت انجام دیتا تھا، اس لیے انہیں پورے عرب میں عزت حاصل تھی۔ قریش کے لوگ بہت کامیاب تاجر بھی تھے، جو گرمیوں میں شام اور سردیوں میں یمن تک تجارت کرتے تھے۔ ان کی تجارت نے انہیں دولت، طاقت اور شہرت دی تھی۔
عرب میں کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی۔ ہر قبیلہ خود مختار ہوتا تھا اور اپنا نظام خود چلاتا تھا۔ قبیلے کا سردار یا شیخ فیصلے کرتا تھا، اور بعض اوقات قبیلے کے بزرگ مل کر مشورہ دیتے۔ ان کے فیصلے قبیلے کی رسم و رواج پر مبنی ہوتے تھے، جنہیں وہ قانون سمجھتے تھے۔ اگر کوئی جرم ہوتا، جیسے قتل یا چوری، تو بدلہ لینا فرض سمجھا جاتا۔ خون کا بدلہ خون یا پھر خون بہا یعنی اونٹوں کی شکل میں معاوضہ دیا جاتا۔ امن قائم رکھنے کے لیے قبیلے کے اندر اتحاد ضروری تھا۔
عربوں میں قبیلوں کی دشمنی ایک عام بات تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر قبیلے آپس میں لڑ پڑتے، اور یہ دشمنی کئی نسلوں تک چلتی۔ کسی قبیلے کے فرد نے دوسرے قبیلے کے آدمی کو مار دیا، یا اونٹ چرا لیا، یا کوئی اور توہین کی، تو بدلہ لینا ضروری سمجھا جاتا۔ لڑائیاں اکثر سالوں چلتی تھیں، اور ان میں عورتوں، بچوں، اور بوڑھوں کو بھی نقصان پہنچتا۔ ان جنگوں میں بہادری، جوش، اور قبیلے کے لیے قربانی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
اسلام سے پہلے کے عرب میں عورت کی حالت بہت بری تھی۔ انہیں کم تر سمجھا جاتا، بیٹیوں کو بوجھ اور بدنامی کا سبب مانا جاتا، اور بعض اوقات زندہ دفن کر دیا جاتا۔ شادی بیاہ میں عورت کی مرضی کا کوئی خیال نہ رکھا جاتا۔ مرد جب چاہے طلاق دے سکتا تھا۔ عورت کو وراثت میں حصہ نہ دیا جاتا، بلکہ خود عورت کو جائیداد کا حصہ بنا کر بانٹا جاتا۔ اگرچہ کچھ عورتیں عزت دار گھروں میں تھوڑی بہت آزادی رکھتی تھیں، لیکن مجموعی طور پر عورت کی کوئی عزت نہ تھی۔
اس وقت غلامی ایک عام چیز تھی۔ جنگوں میں پکڑے جانے والے یا مقروض لوگ غلام بنا لیے جاتے۔ غلاموں سے سخت کام لیے جاتے، ان پر ظلم ہوتا، اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا۔ غلاموں کی کوئی عزت نہ تھی، اور انہیں خرید و فروخت کیا جاتا تھا جیسے جانوروں کو۔ کچھ نیک مزاج لوگ غلاموں کے ساتھ نرمی کرتے، لیکن وہ کم تھے۔ بعض غلام، جیسے حضرت بلالؓ، بعد میں اسلام کی روشنی میں عزت پانے والے عظیم لوگ بنے۔
عرب معاشرے میں بچوں کی تربیت پر زیادہ توجہ نہ دی جاتی۔ خاص طور پر یتیم بچوں کے ساتھ ظلم ہوتا۔ ان کے مال پر قبضہ کر لیا جاتا، ان کی کفالت کا خیال کم رکھا جاتا۔ لڑکوں کو بچپن سے ہی گھڑ سواری، تلوار بازی اور قبیلے کی دشمنیوں میں حصہ لینا سکھایا جاتا، جبکہ لڑکیوں کو تعلیم یا تربیت دینا ضروری نہ سمجھا جاتا۔ یتیم بچے بے سہارا ہوتے، اور اکثر غلاموں جیسی زندگی گزارتے۔
چونکہ عرب کی زمین زیادہ زرخیز نہ تھی، اس لیے لوگوں کا اصل ذریعہ معاش تجارت تھا۔ مکہ، یثرب (مدینہ)، طائف اور دیگر شہروں میں بازار لگتے، جہاں کپڑا، خوشبو، اون، چمڑا، مصالحے، اور دیگر اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی۔ قریش قبیلہ تجارت میں خاص شہرت رکھتا تھا۔ وہ گرمیوں میں شام اور سردیوں میں یمن سفر کرتے، اور قافلے لے کر دور دراز علاقوں تک جاتے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ بکریاں، اونٹ اور گھوڑے پالتے، ان کے دودھ، گوشت اور کھال سے فائدہ اٹھاتے۔ کچھ لوگ لوہار، ترکھان یا دستکار ہوتے، جو ہنر کے ذریعے روزی کماتے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ کے زمانے میں خانہ کعبہ اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا، مگر وقت کے ساتھ لوگوں نے اس میں بدعتیں شامل کر لیں۔ خانہ کعبہ کے اندر اور باہر سینکڑوں بت رکھے گئے تھے، جنہیں لوگ پوجتے تھے۔ حج اور عمرہ کی رسمیں باقی تھیں، لیکن ان کا مقصد بدل گیا تھا۔ طواف برہنہ کر کے کیا جاتا، قربانیاں بتوں کے نام پر ہوتی تھیں، اور دعائیں بھی انہی سے مانگی جاتیں۔ اصل عبادت کی روح ختم ہو چکی تھی، اور لوگ صرف رسمیں نبھا رہے تھے۔
اسلام سے پہلے کے عرب میں زیادہ تر لوگ مشرک تھے۔ وہ ایک اللہ کو جانتے تھے، لیکن اس کے ساتھ کئی بتوں کو اس کے شریک مانتے تھے۔ ہر قبیلے کا اپنا بت ہوتا، اور لوگ سمجھتے کہ یہ بت ان کے لیے اللہ سے سفارش کریں گے۔ عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو صرف ایک اللہ کو مانتے تھے، ان کو "حنفاء" کہا جاتا تھا، جیسے حضرت ابراہیمؑ کا دین۔ اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں یہودی اور عیسائی بھی رہتے تھے، جن کے اپنے آسمانی مذاہب تھے۔
بت پرستی عرب کے دل و دماغ پر چھا چکی تھی۔ مکہ میں سب سے بڑا بت "ھُبل" تھا جو خانہ کعبہ میں رکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ "لات"، "عزّیٰ" اور "مَناة" جیسے مشہور بت بھی تھے۔ لوگ ان بتوں کے سامنے سجدہ کرتے، نذریں مانتے، اور ان کے لیے قربانی کرتے۔ کسی نے سفر پر جانا ہوتا تو بت کے پاس جا کر دعا مانگتا۔ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ یہ بت ان کے دکھ درد دور کریں گے، حالانکہ یہ صرف پتھر اور لکڑی کی بنی ہوئی مورتیاں تھیں۔
اس دور میں تعلیم بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔ عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا۔ گنتی کے چند لوگ تھے جو لکھنا جانتے تھے، اور ان کے پاس کاغذ یا قلم کا بھی انتظام مشکل سے ہوتا۔ تعلیم کا ذریعہ زیادہ تر زبانی تھا۔ لوگ اشعار، کہانیاں، نسب نامے اور تاریخی واقعات زبانی یاد رکھتے تھے۔ بچوں کو بزرگوں سے سن سن کر سیکھنا پڑتا تھا۔ عرب معاشرے میں تعلیم کا تصور محدود تھا، اور اکثر لوگ اس کی اہمیت سے واقف نہ تھے۔
عرب میں شاعری کو خاص مقام حاصل تھا۔ ہر قبیلے کا شاعر ہوتا جو اپنی قوم کی بہادری، شجاعت، اور فخر کو اشعار میں بیان کرتا۔ شاعری میں طنز، تعریف، عشق، غصہ، اور حماسی انداز سب شامل ہوتے۔ بازار عکاظ میں سالانہ مشاعرہ ہوتا جہاں عرب کے بڑے بڑے شاعر اپنے اشعار سناتے اور مقابلے کرتے۔ بہترین اشعار کو خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا، جنہیں "معلقات" کہا جاتا تھا۔ شاعری ہی ان کے ادب، تاریخ اور جذبات کی زبان تھی۔
عربوں کو اپنی زبان پر فخر تھا۔ ان کی گفتگو میں فصاحت (صاف اور اثر دار انداز) اور بلاغت (دل کو چھو جانے والے الفاظ) ہوتی۔ ان کے خطیب یعنی مقرر، قبیلے کے فیصلوں اور جنگوں میں زبردست تقریریں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قرآن مجید نازل ہوا، تو ان کے بڑے بڑے فصیح شاعر اور خطیب بھی حیران رہ گئے کہ یہ کلام انسان کا ہو ہی نہیں سکتا۔ عربی زبان میں قوتِ اظہار بہت تھی، اور یہی چیز ان کی پہچان بن چکی تھی۔
عرب میں مختلف علاقوں میں بازار اور میلے لگتے تھے جہاں لوگ صرف تجارت ہی نہیں بلکہ شاعری، صلح، دشمنی، رشتے ناطے، اور دوسرے اہم کام بھی سرانجام دیتے تھے۔ مشہور بازاروں میں عکاظ، ذو المجاز اور مجنہ شامل تھے۔ یہ میلے صرف تجارتی نہیں بلکہ ثقافتی اور سماجی اہمیت بھی رکھتے تھے۔ ان مواقع پر قبیلے ایک دوسرے سے میل جول رکھتے، خبریں پہنچاتے، اور بعض اوقات دشمنی کو دوستی میں بدلتے۔
اگرچہ عرب معاشرہ جاہل اور گمراہ تھا، مگر ان میں کچھ اعلیٰ اخلاقی صفات بھی پائی جاتی تھیں۔ مثلاً مہمان نوازی، وعدے کی پاسداری، بہادری، سچائی، اور قبیلے کے لیے قربانی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان میں بہت سی بری عادتیں بھی تھیں جیسے شراب نوشی، جوا، عورتوں پر ظلم، قتل و غارت، اور فخر و غرور۔ ان کی اخلاقیات کا معیار ذاتی یا قبیلے کے فائدے پر مبنی تھا، انصاف یا انسانیت کی بنیاد پر نہیں۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں کمزوروں پر ظلم عام تھا۔ طاقتور لوگ یتیموں، عورتوں، اور غلاموں کو دباتے تھے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا۔ اگر کسی کے پاس قبیلہ یا مال نہ ہوتا تو وہ بالکل بے سہارا سمجھا جاتا۔ قبیلے کے سردار اور بڑے لوگ اپنے فیصلے مسلط کرتے، اور غریب لوگوں کی کوئی نہیں سنتا تھا۔ انصاف طاقت کی بنیاد پر ہوتا، سچ اور جھوٹ کا کوئی خاص فرق نہ تھا۔
اگرچہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے، مگر بہت سے لوگ دل سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ لکڑی اور پتھر کے بت ان کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ کچھ لوگ تنہائی میں جا کر غور و فکر کرتے، اللہ کو پکارتے، اور سچائی تلاش کرتے۔ ایسے لوگوں کو "حنفاء" کہا جاتا تھا۔ انہی میں سے کچھ لوگ محسوس کر رہے تھے کہ کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے۔
اسلام سے پہلے کا عرب ایک طرف ظلم، جہالت، اور گمراہی میں ڈوبا ہوا تھا، مگر دوسری طرف کچھ اچھی صفات، جیسے بہادری، زبان کی طاقت، اور مہمان نوازی، ابھی باقی تھیں۔ لوگ کسی سچے رہنما، کسی نبی، اور کسی عظیم پیغام کا انتظار کر رہے تھے۔ اور اسی وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو نبی بنا کر بھیجا، جنہوں نے صرف عرب ہی نہیں، بلکہ دنیا کے ہر کونے کو انصاف، اور ہدایت کے نور سے روشن کر دیا۔
