وادیٔ سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین شہری تہذیبوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ تہذیب تقریباً 3300 قبل مسیح میں ابھری اور 1300 قبل مسیح تک قائم رہی۔ اس کا شمار میسوپوٹیمیا اور مصر کی تہذیبوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس تہذیب کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ شہری منصوبہ بندی، نکاسیٔ آب، صنعت و حرفت، تجارت اور تحریر کے نظام سے آراستہ تھے، حالانکہ دنیا کے بیشتر علاقے اُس وقت تک تمدن سے ناواقف تھے۔👇
،وادیٔ سندھ کی تہذیب : ایک عظیم تاریخی ورثہ"
وادیٔ سندھ کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین شہری تہذیبوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ تہذیب تقریباً 3300 قبل مسیح میں ابھری اور 1300 قبل مسیح تک قائم رہی۔ اس کا شمار میسوپوٹیمیا اور مصر کی تہذیبوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس تہذیب کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ شہری منصوبہ بندی، نکاسیٔ آب، صنعت و حرفت، تجارت اور تحریر کے نظام سے آراستہ تھے، حالانکہ دنیا کے بیشتر علاقے اُس وقت تک تمدن سے ناواقف تھے۔👇
انیسویں صدی کے آخر میں جب انگریز حکومت ہندوستان میں ریل کی پٹری بچھا رہی تھی، تو مزدوروں کو پنجاب کے علاقے میں کچھ خاص قسم کی پختہ اینٹیں اور مٹی کے برتن ملے۔ 1921ء میں ماہرِ آثارِ قدیمہ دیا رام ساہنی نے ان اشیاء پر تحقیق کی اور ہڑپہ کی کھدائی کی، جہاں سے قدیم شہر کے آثار سامنے آئے۔ اگلے سال سر جان مارشل نے سندھ کے علاقے میں موہنجو داڑو کی کھدائی کر کے ایک اور قدیم شہر کا انکشاف کیا۔ ان دونوں شہروں کی مشابہت نے ماہرین کو اس تہذیب کے وجود کا قائل کر دیا۔ بعد میں لوتھل، دھولاویرا، راکھی گڑھی اور دیگر درجنوں مقامات کی دریافت نے اس تہذیب کے وسیع دائرے کو ثابت کر دیا۔👇
یہ تہذیب موجودہ پاکستان، بھارت کے مغربی اور شمالی علاقوں، اور افغانستان کے بعض حصوں پر محیط تھی۔ اس کا مرکز دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کے کنارے آباد تھا۔ ہڑپہ دریائے راوی کے کنارے واقع تھا، موہنجو داڑو دریائے سندھ کے قریب، لوتھل گجرات کی بندرگاہ کے قریب، دھولاویرا رن آف کچھ میں، اور راکھی گڑھی ہریانہ میں واقع تھا۔ ان شہروں کی ترتیب، نقشہ بندی، اور طرزِ تعمیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تہذیب ایک منظم، ترقی یافتہ اور باقاعدہ شہری تمدن پر مبنی تھی۔👇
وادیٔ سندھ کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کے شہر تھے جو باقاعدہ نقشے کے مطابق بسائے گئے تھے۔ گلیاں سیدھی، ایک دوسرے سے متوازی اور ایک جال کی صورت میں بنی ہوئی تھیں۔ ہر گھر کے ساتھ نکاسیٔ آب کا نظام موجود تھا، جو پکی ہوئی اینٹوں کی نالیوں کے ذریعے مرکزی نالوں تک جاتا تھا۔ یہ نظام اتنا مؤثر تھا کہ آج بھی کئی جدید شہروں میں اس معیار کا انتظام نظر نہیں آتا۔
گھروں کی تعمیر میں پکی ہوئی مستطیل اینٹیں استعمال ہوتی تھیں، جو ایک خاص تناسب سے تیار کی جاتی تھیں۔ 👇
عام گھروں میں کئی کمرے، صحن، غسل خانہ اور کوٹھریاں ہوتی تھیں۔ بعض گھروں میں کنویں بھی موجود تھے، جو صاف پانی کی فراہمی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
موہنجو داڑو میں ایک عظیم حمام (Great Bath) دریافت ہوا ہے جو ممکنہ طور پر مذہبی یا سماجی رسومات کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس حمام میں پانی کے اندر اور باہر آنے کا نظام، تالاب کے کنارے سیڑھیاں اور پختہ فرش آج بھی ماہرین کو حیرت میں مبتلا کر دیتا ہے۔👇
اس تہذیب کے باشندے پرامن، محنتی اور باقاعدہ نظامِ زندگی کے قائل تھے۔ کسی بڑی فوج، اسلحے یا جنگی آلات کے آثار نہیں ملتے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ عمومی طور پر جنگ و جدل سے دور اور امن پسند تھے۔ ان کے معاشرے میں طبقاتی فرق نمایاں نہیں تھا۔ گھروں کی یکساں تعمیر، یکساں برتن، اور زیورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم عام نہ تھی۔ عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے زیورات دستیاب تھے، جن میں کنگن، ہار، نتھ، اور چوڑیاں شامل تھیں۔ بچوں کے کھلونے، جانوروں کی مورتیاں، اور پہیے والے ماڈل بھی دریافت ہوئے ہیں، جو بچوں کی تفریح کا ثبوت دیتے ہیں۔👇
زراعت اس تہذیب کی معیشت کا بنیادی ستون تھی۔ گندم، جو، باجرہ، کھجور، کپاس اور دیگر اجناس کاشت کی جاتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کپاس کی کاشت کے اولین شواہد بھی یہی تہذیب فراہم کرتی ہے، جو بعد میں مصر و یونان تک پہنچی۔
تجارت نہایت منظم تھی۔ وزن اور پیمائش کے باقاعدہ پیمانے موجود تھے، جن میں باٹ، ترازو، اور مخصوص نشان والے وزن شامل تھے۔ تجارت دریاؤں کے ذریعے، بیل گاڑیوں کے ذریعے اور شاید سمندری راستوں سے بھی کی جاتی تھی۔ لوتھل میں جو بندرگاہ دریافت ہوئی ہے، وہ دنیا کی قدیم ترین بندرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔
انڈس تہذیب کے لوگ بین الاقوامی تجارت سے بھی واقف تھے۔ ان کی مہریں (Seals) میسوپوٹیمیا، ایران، اور خلیج کے دیگر علاقوں میں ملی ہیں، جو ان کے تجارتی روابط کا ثبوت ہیں۔👇
انڈس تہذیب کے لوگ تحریر کے نظام سے آشنا تھے، مگر افسوس کہ آج تک ان کی زبان کو مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے تختوں، مہروں، اور برتنوں پر مخصوص علامات کندہ کیں، جو غالباً ان کی زبان کا حصہ تھیں۔ اس رسم الخط کو "انڈس اسکرپٹ" کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ تحریر چند حروف پر مشتمل ہے، اور اس کے ساتھ کوئی دو لسانی متن دستیاب نہیں، اس لیے اسے پڑھنے کی کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ اگر کبھی یہ رسم الخط سمجھ لیا گیا تو وادیٔ سندھ کے رازوں کے کئی دروازے کھل سکتے ہیں۔👇
وادیٔ سندھ کے باشندے مذہب سے وابستہ تھے، مگر ان کے مذہب کی نوعیت مکمل طور پر واضح نہیں۔ مٹی کی بنی ہوئی عورت کی مورتیوں کو "مدر گاڈیس" (ماں دیوی) کہا جاتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زرخیزی اور زندگی کی دیوی کی پرستش کرتے تھے۔ ایک مشہور مہر پر ایک شخص کو یوگا کی حالت میں جانوروں کے درمیان بیٹھے دکھایا گیا ہے، جسے کچھ ماہرین "پشوپتی" یا "شیو" کی ابتدائی شکل قرار دیتے ہیں۔
قبرستان بھی دریافت ہوئے ہیں جہاں انسانوں کو کسی ترتیب سے دفنایا گیا ہے، اور بعض قبروں میں برتن اور اشیائے استعمال بھی رکھی گئی ہیں، جو موت کے بعد زندگی کے عقیدے کی طرف اشارہ کر