یقین کریں، اگلا آئی فون خریدنے کے لیے آپ کو اُس کی دُگنی
سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔
اگر چین سے درآمد پر 145٪ ٹیرف (ٹیکس) واپس آ گیا، تو یہی ہوگا۔
ایپل کا جواب؟
وہ 2026 کے آخر تک تمام امریکی مارکیٹ کے لیے آئی فونز کی تیاری بھارت میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
لیکن خبروں کی سرخیاں ایک بڑی اور خطرناک حقیقت کو چھپا رہی ہیں۔
وہ حقیقت کیا ہے؟
یہ ہے وہ بات جو ایپل آپ کو نہیں بتانا چاہتا:👇
اگرچہ بھارت ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے، مگر ٹیکنالوجی کے میدان میں مینوفیکچرنگ انفراسٹرکچر چین کے مقابلے میں ابھی مکمل ترقی یافتہ نہیں۔ بھارت میں ایپل کو وہی معیار، تیزرفتاری، اور مقدار حاصل کرنا ایک چیلنج ہو گا جو اسے چین میں حاصل ہے۔ بنیادی سہولیات، بجلی، لاجسٹکس اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی جیسے مسائل ایپل کی تیاری کی رفتار اور معیار پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ابتدائی مرحلے میں مصنوعات کی فراہمی میں رکاوٹ آ سکتی ہے یا قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
بھارت میں مزدوروں کی تنخواہیں نسبتاً کم ہیں، جس سے کمپنیاں لاگت بچا سکتی ہیں، مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مزدور اکثر غیر انسانی حالات میں کام کرتے ہیں۔ ایپل جیسے عالمی برانڈ کو اگر بھارت میں بڑے پیمانے پر پیداوار کرنی ہے تو اسے وہاں کے مزدوروں کے حقوق، کام کے اوقات، اور صحت و تحفظ کے معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا۔ اگر ایپل نے صرف لاگت بچانے کے لیے ان پہلوؤں کو نظرانداز کیا تو اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اگرچہ ایپل بھارت میں مینوفیکچرنگ سے کچھ لاگت بچا لے گا، مگر ابتدائی طور پر نئی فیکٹریوں کا قیام، تربیت، اور سپلائی چین کو منتقل کرنے کی لاگت آئی فون کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے۔ صارفین کے لیے یہ تبدیلی فائدہ مند ہو سکتی ہے، مگر وقت کے ساتھ۔ قلیل مدت میں صارفین کو یا تو مہنگے آئی فون خریدنے ہوں گے یا معیار میں ممکنہ کمی برداشت کرنی پڑے گی۔ اس کے علاوہ، بھارت سے امریکہ تک سامان کی ترسیل اور درآمدی ٹیکسز بھی قیمتوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
ایپل برسوں سے چین پر اپنی سپلائی چین کے لیے انحصار کرتا رہا ہے۔ وہاں کے تجربہ کار کاریگر، تیز لاجسٹکس، اور مکمل صنعتی نیٹ ورک نے ایپل کو عالمی معیار کی مصنوعات بنانے میں مدد دی ہے۔ بھارت میں منتقلی سے یہ مکمل نیٹ ورک متاثر ہو گا۔ ایپل کو نئے سپلائرز، پارٹنرز، اور سسٹمز بنانے ہوں گے، جو وقت اور سرمایہ دونوں طلب کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی اگر ناکام رہی یا تاخیر کا شکار ہوئی تو مارکیٹ میں آئی فون کی دستیابی متاثر ہو سکتی ہے، جس کا فائدہ دیگر برانڈز کو ہو گا۔
ایپل کی بھارت منتقلی صرف ایک کمپنی کا قدم نہیں بلکہ یہ ایک رجحان بن سکتا ہے۔ اگر ایپل بھارت میں کامیاب رہا تو دیگر کمپنیاں جیسے سامسنگ، گوگل، اور انٹیل بھی اپنے پیداواری یونٹ بھارت منتقل کر سکتے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر چین کی برتری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی معیشت کو زبردست فروغ ملے گا۔ ٹیکنالوجی مارکیٹ میں نئی مسابقتی دوڑ شروع ہو گی، اور صارفین کو نئی قیمتیں، ماڈل، اور مارکیٹنگ کی حکمتِ عملیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
ایپل جیسے بڑے ادارے کی بھارت منتقلی سے بھارتی معیشت کو بے پناہ فائدہ ہو گا۔ نہ صرف ہزاروں نئی نوکریاں پیدا ہوں گی بلکہ بھارت عالمی سطح پر ایک ٹیکنالوجی ہب کے طور پر اُبھرے گا۔ ایپل کی موجودگی سے دیگر ٹیک کمپنیوں کو بھی بھارت میں سرمایہ کاری کا اعتماد ملے گا۔ حکومت کو ٹیکس آمدن بڑھے گی اور نوجوانوں کو ہنر سیکھنے کے نئے مواقع میسر آئیں گے۔ اس کے علاوہ، بھارت عالمی ٹیک مارکیٹ میں مزید اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
طویل مدت میں صارفین کو بھارت میں تیار شدہ آئی فونز کی قیمت میں ممکنہ کمی کا فائدہ ہو سکتا ہے، بشرطیکہ معیار برقرار رکھا جائے اور فراہمی میں رکاوٹ نہ ہو۔ ایپل اگر مقامی پیداوار کو بہتر انداز میں چلاتا ہے تو یہ نیا ماڈل پائیدار اور مستحکم بن سکتا ہے۔ مگر خطرہ یہ ہے کہ اگر معیار میں کمی آئی، یا صارفین کو خراب تجربہ ہوا، تو ایپل کی مقبولیت متاثر ہو سکتی ہے۔ نیز، صارفین کو نئی سپلائی چین کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا اور قبول کرنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔
آنے والے سالوں میں ایپل کی بھارت میں منتقلی ایک تاریخی قدم بن سکتی ہے جو عالمی سطح پر مینوفیکچرنگ کی سمت کو بدل دے گا۔ اگر ایپل یہ منتقلی کامیابی سے کر لیتا ہے تو وہ دیگر حریفوں سے کئی قدم آگے نکل جائے گا۔ مگر یہ سب کچھ بغیر خطرات اور مشکلات کے ممکن نہیں۔ سیاسی حالات، مزدور تحریکیں، لاجسٹک چیلنجز، اور صارفین کی توقعات – سب مل کر ایک نیا منظرنامہ تشکیل دیں گے۔ ایپل کے لیے اصل چیلنج یہ ہو گا کہ وہ معیار، لاگت، اور وقت – تینوں کا توازن کیسے قائم رکھتا ہے۔
