"کباڑ سے اربوں کی سلطنت تک"
1954 میں ایک کسان گھرانے سے تعلق رکھنے والے لڑکے نے اسٹیل بنانے کا نیا طریقہ متعارف کروایا۔ اس وقت کی بڑی اسٹیل کمپنیاں، جنہیں "اسٹیل جائنٹس" کہا جاتا تھا، اس پر ہنسنے لگیں کیونکہ اُس نے "منی فیکٹریاں" بنانے کا خیال پیش کیا تھا – یعنی چھوٹی چھوٹی اسٹیل فیکٹریاں جو کم سرمایہ اور سادہ طریقے سے کام کریں۔
لیکن وہی "منی فیکٹریوں" کا طریقہ اتنا کامیاب ہوا کہ آج دنیا کی تقریباً ایک تہائی اسٹیل (یعنی 585 ملین ٹن) اسی طریقے سے تیار کی جاتی ہے۔
یہ نوجوان کباڑ (Scrap metal) سے اسٹیل بنا کر آہستہ آہستہ ایک 1.1 ارب ڈالر (تقریباً 300 ارب روپے) کی سلطنت کا مالک بن گیا۔
کینیٹ ایوریگ 1920 کی دہائی میں ایک عام کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش امریکا کے دیہی علاقے میں ہوئی جہاں وسائل محدود تھے مگر محنت کی قدرو قیمت تھی۔ بچپن سے ہی ان کے اندر کچھ مختلف کرنے کی جستجو موجود تھی۔ اسکول کے بعد انہوں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی، جو ان کے کیریئر کا پہلا اہم قدم ثابت ہوا۔ اسٹیل انڈسٹری میں ان کی دلچسپی اس وقت بڑھی جب انہوں نے صنعتی ترقی اور تعمیراتی میدان میں اسٹیل کی اہمیت کو جانا۔ اگرچہ وہ بہت معمولی پس منظر سے تھے، لیکن ان کے خیالات غیر معمولی تھے۔
1950 کی دہائی میں اسٹیل انڈسٹری پر چند بڑی کمپنیاں قابض تھیں۔ یہ کمپنیاں بڑی، بھاری بھرکم فیکٹریوں کے ذریعے اسٹیل تیار کرتی تھیں، جن پر اربوں روپے خرچ ہوتے تھے۔ ان فیکٹریوں کا ڈھانچہ سخت اور غیر لچکدار تھا، جہاں تبدیلی یا جدت کو خوش آمدید نہیں کہا جاتا تھا۔ کینیٹ ایوریگ نے جب اپنے چھوٹے سائز کی فیکٹریوں کا تصور پیش کیا تو ان پر طنز کیا گیا۔ ان کا مذاق اڑایا گیا، اور کہا گیا کہ یہ طریقہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایوریگ نے ہمت نہ ہاری، اور اپنے ویژن پر قائم رہے۔
کینیٹ ایوریگ نے Nucor کمپنی کی بنیاد رکھی، جو ابتدا میں ایک چھوٹی کمپنی تھی اور اسٹیل بنانے کے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کرتی تھی۔ انہوں نے بھاری سرمایہ کاری کے بجائے چھوٹے پلانٹس، آسان مشینری اور ری سائیکل کیے گئے کباڑ سے اسٹیل تیار کرنے کا ماڈل اپنایا۔ شروع میں انہیں کئی چیلنجز کا سامنا ہوا، جیسے خام مال کی فراہمی، مزدوروں کی تربیت اور مارکیٹ میں جگہ بنانا۔ ان کی کمپنی چھوٹے پیمانے پر اسٹیل بناتی تھی، لیکن یہ عمل تیز، سستا اور ماحول دوست تھا، جس کا فائدہ جلد ہی نظر آنے لگا۔
ایوریگ کا سب سے بڑا کارنامہ "منی مِلز" (Mini Mills) کا تصور تھا۔ یہ چھوٹے سائز کے اسٹیل پلانٹس تھے جو کباڑ (scrap metal) کو پگھلا کر نیا اسٹیل بناتے تھے۔ یہ پلانٹس سادہ ٹیکنالوجی پر مبنی ہوتے اور ان میں کم مزدور لگتے۔ چونکہ ان کی لاگت کم تھی، اس لیے یہ منافع زیادہ دیتے۔ اس ماڈل نے اسٹیل انڈسٹری میں انقلاب برپا کر دیا۔ وہ جگہیں جہاں بڑے پلانٹس بنانا ممکن نہ تھا، وہاں منی ملز آسانی سے بنائے جا سکتے تھے۔ اس نے نہ صرف Nucor کو ترقی دی بلکہ دنیا بھر میں ایک نیا رجحان پیدا کیا۔
کینیٹ ایوریگ کا ماننا تھا کہ مزدور صرف تنخواہ کے محتاج نہیں، بلکہ عزت اور اعتماد بھی چاہتے ہیں۔ انہوں نے Nucor میں ایک ایسی ثقافت قائم کی جہاں ملازمین کو خود مختاری، منافع میں حصہ اور عزت دی گئی۔ انہوں نے درمیانی سطح کی مینجمنٹ کو محدود کیا اور فیصلے کرنے کی طاقت نچلی سطح تک منتقل کی۔ ان کا یہ ماڈل اس وقت کے کاروباری ماحول کے برعکس تھا، مگر یہ انتہائی مؤثر ثابت ہوا۔ نتیجتاً، Nucor کے ملازمین نہایت وفادار اور محنتی تھے، جو کمپنی کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔
شروع میں بڑی کمپنیاں Nucor کے ماڈل کو حقیر سمجھتی تھیں۔ لیکن جیسے جیسے Nucor کی پیداوار بڑھی اور منافع میں اضافہ ہوا، سب کی نظریں اس پر مرکوز ہونے لگیں۔ اسٹیل انڈسٹری کو احساس ہوا کہ ایوریگ کا ماڈل وقت کی ضرورت ہے۔ کئی کمپنیوں نے منی ملز کے طرز پر فیکٹریاں بنانا شروع کر دیں، لیکن Nucor کی سادگی اور ثقافت کو دہرانا ان کے لیے مشکل ثابت ہوا۔ ایوریگ کا وژن اب پوری انڈسٹری میں تسلیم کیا جانے لگا، اور انہیں اسٹیل انڈسٹری کا "خاموش انقلابی" کہا جانے لگا۔
ایوریگ کے طریقہ کار نے صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کو متاثر کیا۔ منی ملز کا تصور لاطینی امریکا، ایشیا اور یورپ میں بھی اپنایا گیا۔ ان فیکٹریوں کی کم لاگت اور تیزی سے کام کرنے کی صلاحیت نے ترقی پذیر ممالک میں اسٹیل کی پیداوار ممکن بنا دی۔ آج دنیا بھر میں بننے والا ایک تہائی اسٹیل ایوریگ کے ماڈل کے مطابق تیار ہوتا ہے۔ ان کا یہ اثر اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک انسان کا نظریہ پوری دنیا کی صنعتوں کا رخ موڑ سکتا ہے۔
Nucor کی کامیابی نے کینیٹ ایوریگ کو ارب پتی بنا دیا۔ ان کی کمپنی کی مالیت 1.1 ارب ڈالر سے بھی بڑھ گئی، مگر ایوریگ نے ہمیشہ سادہ زندگی کو ترجیح دی۔ وہ مہنگے سوٹ نہیں پہنتے تھے، عام دفتری کمرے میں بیٹھتے اور اپنے ملازمین کے ساتھ براہ راست بات کرتے۔ ان کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ وہ خود کو دوسروں سے بڑا نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ٹیم ورک، سچائی اور سادگی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت نے ان کے کاروباری ماڈل کو اور زیادہ معتبر بنایا۔
کینیٹ ایوریگ نے 1990 کی دہائی میں ریٹائرمنٹ لی، لیکن ان کی قائم کردہ ثقافت اور نظام آج بھی Nucor میں زندہ ہے۔ ان کے بعد آنے والے CEO حضرات نے بھی ان کے اصولوں کو جاری رکھا۔ دنیا بھر کی بزنس اسکولز میں ان کی قیادت کا انداز پڑھایا جاتا ہے۔ ان کی کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ وسائل کی کمی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ نہیں، اگر وژن، محنت اور سچائی ہو تو سب کچھ ممکن ہے۔ وہ کاروبار کے لیے ایک مشعل راہ بن گئے۔
کینیٹ ایوریگ کی کہانی اس بات کی روشن مثال ہے کہ ایک عام انسان غیر معمولی تبدیلی لا سکتا ہے۔ انہوں نے صرف اسٹیل نہیں بنایا، بلکہ ایک ایسا نظام بنایا جو انصاف، اعتماد اور سادگی پر مبنی تھا۔ ان کی جدت، لیڈرشپ اور وژن نے دنیا کو دکھایا کہ بڑی تبدیلیاں ہمیشہ شور سے نہیں، بلکہ مسلسل محنت اور واضح سوچ سے آ
